این آر آو کس کا مسئلہ ہے؟
اگر پاکستانی میڈیا اور خصوصاً پاکستان کے نجی ٹیلیوژن چینلز کو کسی نے پچھلے چند دنوں باقاعدگی سے دیکھا ہو تو وہ یقیناً اس نتیجے پر پہنچا ہو گا کہ اس وقت ملک میں قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او سے بڑا مسلہء اور کوئی نہیں۔
لیکن اگر یہی شخص اپنے ڈرائینگ روم سے باہر نکل کر عوام سے بات کرے تو شاید اس نتیجے پر پہنچے کہ این آر او سے نہ تو عوام کو کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی عوام کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت۔
میں نے حال ہی میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد تک نیشنل ہائی وے اور انڈس ہائی وے پر سفر کیا۔ لگ بھگ بارہ سو میل کے اس سفر میں کئی پڑاؤ کیے۔ کراچی، شہید بینظیر آباد، نواب شاہ، مورو، لاڑکانہ، کشمور، راجن پور، ڈیرہ غازی خان، ملتان اور جھنگ کے راستے اسلام آباد پہنچے۔
اگر پاکستانی میڈیا اپنا کردار صرف خبروں، اطلاعات، تجزیوں اور تبصروں تک ہی محدود رکھ پائے تو شاید اس مسئلہ پر جاری بحث مباحثے کا رخ ایک بار پھر شخصی سیاست سے قومی مفاہمت کے عمل کی جانب مڑ جائے۔
بہت سے لوگوں سے ملاقات ہوئی، بات ہوئی، ہر طرح کا ذکر سنا۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، انتہا پسندی، قوم پرستی حتٰی کہ سرائیکی صوبے کا بھی ذکر سنا لیکن اگر کسی ایک چیز کا کہیں بھی ذکر نہ آیا تو وہ این آر او تھا۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ جو مسئلہ آجکل پاکستانی میڈیا کے لیے اولین ترجیح رکھتا ہے اس کی عوام کے دل و دماغ میں رائی برابر جگہ بھی نہیں؟
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ پاکستانی سیاست نے جس دھاگے میں این آر او اور عوامی امنگوں کو اکٹھا پرونے کی کوشش کی ہے وہ دھاگہ ہی وقت کی لہروں میں بہہ گیا ہے۔
اسے یوں سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ این آر او بذات خود ایک بے معنی قانون ہے۔ یہ ماننا مشکل ہے کہ جن سیاستدانوں پر برسہا برس مخالف حکومتوں کی جانب سے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود کسی کیس کو ثابت نہیں کیا جا سکا، انہیں یکایک اپنی سیاسی یا ذاتی بقا کے لیے این آر او کی ضرورت پڑ جائے۔
این آر او دراصل ایک بہت جامع اور اہم سیاسی فلسفے یعنی قومی مفاہمت کے فلسفے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ قومی مفاہمت کا یہ فلسفہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو نے کئی برس کی تگ ودو کے بعد دنیا سے منوایا اور دنیا کو پاکستان کے لیے اس کی ضرورت پر قائل کیا۔
این آر او نامی قانون نے جس سیاسی فلسفے کو پاکستان میں نافذ کرنا تھا اس کے تحت ایک طرف تو ملک کی سیاسی جماعتوں کے بیچ اور دوسری طرف سیاسی اور عسکری قیادت کے بیچ ایک ایسی مفاہمت ہونی تھی جس کے بعد پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر مقدمے بازی کی روایت ہمیشہ کے لیے ختم کی جا سکے۔
بے نظیر بھٹو تو اس فلسفے کو اور بھی آگے لے جانے کی خواہشمند تھیں۔ وہ کئی سال تک جنوبی افریقہ کی طرز پر حقائق اور مفاہمت کمیشن بنانے پر زور دیتی رہیں جس کے سامنے سب سیاستدان، جرنیل، کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس اپنے جرائم کا اعتراف کرتے، آئندہ قانون کی پاسداری کا عہد کرتے، سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچنے کا عزم کرتے اور فوجی قیادت سیاسی حکومتوں کے خلاف سازش کرنے سے توبہ کرتی۔
بے نظیر بھٹو کی رائے میں یہ وہ واحد راستہ تھا جو پاکستان کو ماضی کے دلدل سے نکال کر ایک بہتر سیاسی مستقبل کی جانب دھکیل سکتا تھا۔ لیکن ان کی رائے چند سیاستدانوں اور جرنیلوں کی انا پرستی کی نظر ہوئی۔ قومی مفاہمت کا خواب سکڑ کر سیاسی مفاہمت تک محدود ہوا اور یوں بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا راستہ کھلا۔
آجکل پاکستان مسلم لیگ نواز کا یہ کہنا کہ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں تھا محض سیاسی بیان بازی ہے۔ پاکستانی عسکری ذرائع کے مطابق بینظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف میں ہونے والی ڈیل میں دبئی کے حکمران خاندان کا رول اہم تھا۔ لیکن اس وقت جنرل مشرف کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اگر وہ ایک جلا وطن رہنما کی واپسی پر دبئی کے شیخ کی بات مان لیں تو دوسرے کی واپسی سے متعلق سعودی عرب کے شیخ کو انکار ان کے لیے نا ممکن ہو جائے گا۔
لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گو میاں نواز شریف این آر او پر ہونے والے مذاکرات کا براہ راست حصہ تو نہ تھے لیکن ان کی واپسی اس قانون سے اتنی ہی جڑی ہوئی تھی جتنی بینظیر بھٹو کی۔
بینظیر بھٹو کی واپسی کے فوراً بعد ہونے والی سیاست عوام میں این آر او کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ قاف نے بہت شور مچایا کہ بی بی جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر کے واپس آ رہی ہے لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگوں نے انہیں کراچی میں خوش آمدید کہا۔
وطن واپسی کے بعد بینظیر بھٹو نے ایک دانستہ حکمت عملی کے تحت میاں نواز شریف سے مسلسل رابطہ رکھا۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ قتل ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے میاں نواز شریف سے ٹیلیفون پر بات کی تھی۔ بینظیر بھٹو کی ہر بات اور ہر حرکت سے واضح تھا کہ وہ اپنے مفاہمتی فلسفے کو محض ایک قانون تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔ ان کی یہ واضح خواہش تھی کہ وہ اپنے ناقدین پر ثابت کریں کہ این آر او ان کی ذاتی سیاست کی بقا نہیں بلکہ پاکستان میں مفاہمت کے مستقبل کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بینظیر بھٹو کا اصرار تھا کہ جب سیاسی دشمنی کی دیواروں کو قانونی سہارا دے کر کھڑا کیا ہو تو انہیں گرا کر ان کی جگہ سیاسی مفاہمت کی بنیادیں ڈالنا بھی قانونی سہارے کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کی نظر میں این آر او کے بغیر چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل درآمد ناممکن تھا اور اس معاملے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے کبھی ان سے اختلاف نہیں کیا۔
ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔ ان کی موت کے ساتھ ہی پاکستان میں تیزی سے پنپتی ہوئی سیاسی مفاہمت نے بھی دم توڑ دیا۔ سیاسی مفاہمت کے اس کھیل میں میاں نواز شریف اس وقت تک بینظیر بھٹو کے جونئیر پارٹنر بنے رہنے پر آمادہ تھے۔ لیکن بینظیر بھٹو کی موت سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے انہیں نئی راہیں دکھائیں۔
دوسری جانب بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری کی سیاست نے بھی ایک نئی کروٹ لی۔ بینظیر بھٹو یہ طے کر کے وطن لوٹیں تھیں کہ آصف زرداری دبئی میں رہتے ہوئے بچوں کا خیال رکھیں گے۔ لیکن ان کی موت نے پارٹی کی ذمہ داری آصف زرداری پر ڈال دی جو نہ تو بینظیر بھٹو کے سیاسی مفاہمت کے فلسفے سے پوری طرح واقف تھے اور نہ ہی اسے عملی جامہ پہنانے کا سیاسی قد کاٹھ رکھتے تھے۔
نتیجتاً صورتحال ججوں کی بحالی پر جھگڑے سے ہوتی ہوئی پنجاب حکومت کی برطرفی تک جا پہنچی۔ فوج نے کیری لوگر بل پر اعتراض کیا تو مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں اور عسکری قیادت کے بیچ رات گئے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سنہ دو ہزار نو پر انیس سو نوے کا گماں ہونے لگا۔ وہ سیاسی مفاہمت جو این آر او کی روح تھی، دم توڑ گئی۔
وہی این آر او جس نے پاکستانی سیاست کو مفاہمت کے ایک نئے دور میں لے جانا تھا چند گنے چنے لوگوں کی ذاتی سیاست کا پہرے دار نظر آنے لگا۔ ایسے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس دو راستے بچے۔ یا تو وہ بینظیر بھٹو کے مفاہمتی فلسفے کو پھر سے زندہ کر کے این آر او پر ویسا ہی اتفاق رائے پیدا کر لیتی جو اس کی مقتول رہنما کی زندگی میں تھا۔ اور یا اس بن روح کے پتلے کو مردہ جان کر فوراً دفنا دیتی۔
ایسا نہ کر کے پاکستان پیپلز پارٹی نے پیاز بھی کھائے اور جوتے بھی۔
لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں این آر او پر موجودہ بحث صرف اور صرف صدر آصف علی زرداری کی شخصیت پر مرکوز نظر آتی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں صدر مخالف دھڑا یہ ماننے کو تیار ہی نظر نہیں آتا کہ این آر او کی موت دشمن کی نہیں دوست کی موت ہے۔
اگر پاکستانی میڈیا اپنا کردار صرف خبروں، اطلاعات، تجزیوں اور تبصروں تک ہی محدود رکھ پائے تو شاید اس مسئلہ پر جاری بحث مباحثے کا رخ ایک بار پھر شخصی سیاست سے قومی مفاہمت کے عمل کی جانب مڑ جائے۔
لیکن فی الوقت میڈیا میں صدر مخالف دھڑا سخت بھنایا ہوا نظر آتا ہے۔ این آر او اچھا ہے یا برا، اس سے قطع نظر لگتا یہی ہے کہ اٹھائیس نومبر کے بعد این آر او کی قبر میں اس قانون کے ساتھ ساتھ قومی مفاہمت کا مردہ بھی لیٹے گا۔
اس وقت پاکستان میں میاں نواز شریف وہ واحد سیاستدان ہیں جو اس قبر کی کھدائی روک سکتے ہیں۔
میاں نواز شریف اور صدر زرداری میں کشیدگی اپنی جگہ لیکن این آر او پر ایک سلجھا ہوا اور جامع موقف اختیار کر کے وہ بینظیر بھٹو کے اس سیاسی فلسفے کو پھر سے زندہ کر سکتے ہیں جو ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر ایک گمنام قاتل کے ہاتھوں غارت ہوا تھا
Destabilising the democratic system —Dr Manzur Ejaz
No one has any idea how the NRO is going to play out in the courts. But everyone knows that corruption is rampant in Pakistan and there are no effective means to check it. Ousting Zardari will neither fix the system nor validate the continuation of democracy in Pakistan
During the 1990s Benazir Bhutto and Nawaz Sharif took turns serving as prime ministers. Both did not complete their terms. What would have been wrong with Bhutto and Sharif completing their terms? The total number of years they ruled would have been the same number, except that the democratic system would have been consolidated. The purpose of replacing one with the other was not to improve governance but to keep the democratic system unstable. When it was clear that both the PPP and the PML-N can win elections with the same personalities and same functionaries, why was the democratic system continuously subverted?
To understand this better, we can look at the current situation where President Asif Ali Zardari is being pressurised to resign. Prime Minister Yousaf Raza Gilani is also being pushed around to quit. Whoever is playing this game either has no idea of the consequences or is determined to keep destabilising the democratic system in Pakistan. Zardari’s replacement will probably be treated the same way.
All of Zardari’s drawbacks now being highlighted were known to the constituency that elected him. Everyone knew that he and many of his close associates have been protected by the National Reconciliation Ordinance (NRO). This means that a majority of the electorate, wrongly or rightly, discounted this factor. Now according to the established democratic principles, either he has to be allowed to complete his term or be impeached according to the provisions of the Constitution. Any other method would be a violation of the essential democratic rules.
Zardari was kept in jail for eight years without any verdict on the corruption charges for which he was booked. If he was bailed out in one case the government would register another case to keep him behind bars. Primarily, he was incarcerated as a political bargaining chip. The circumstances helped him and the same game of bargaining in which he was a mere chip eventually elevated him to the seat of the president. The whole game, starting with his incarceration to the presidency, is bizarre. The campaign of ousting him is also part of the same bizarre manipulation.
Like most Pakistanis I too believe that Zardari and his cohorts have used their positions to accumulate illegal money. They siphoned off billions of dollars to foreign banks. They may be doing the same right now. But the question is: how do they do it single-handedly? Many institutions must be involved in this loot and plunder. Why can the system not stop such thefts while they are happening?
Most Pakistanis who have become rich in the last three decades — about 10 percent of the population — have not accumulated wealth through industry, trade or other legal means. An overwhelming majority of the new rich has used illegal means to gain wealth. But the proportionately much higher number of PPP leaders covered by the NRO indicates that the establishment and their proxies had a vendetta against them. Otherwise, hordes of the rich would have been in that list.
No one has any idea how the NRO is going to play out in the courts. But everyone knows that corruption is rampant in Pakistan and there are no effective means to check it. Ousting Zardari will neither fix the system nor validate the continuation of democracy in Pakistan.
Zardari may have been the worst choice as a president but a constituency elected him with full knowledge of his shortcomings. The same constituency has the right to dislodge him according to the provisions of Pakistan’s Constitution. Any other method employed to dismiss him will mean the failure of the democratic system in Pakistan. And the architect of such an illegal ouster should be ready to suggest not just Zardari’s replacement but also an alternative to democracy.
The writer can be reached at manzurejaz@yahoo.com Source
The campaign against the president —Munir Attaullah
It is true that the president can do no right as far as our media is concerned. It is uniformly hostile. And that, to some extent, has been the case even since those early days of 2008 when Mr Zardari first unexpectedly rose to political power
Like most of us when travelling abroad, I try hard to keep up with what is going on in Pakistan. But the many rich and mysterious flavours of the bouillabaisse that is Pakistani politics are best appreciated by local tasting. Experts say that the sense of smell has a pre-eminent role in influencing our sense of taste. Could that be the reason why, when asking the question ‘what’s cooking?’ we find the many delicious aromas of congenial rumours so irresistible to our political palette?
(I assume most readers are sufficiently cosmopolitan to understand that reference to bouillabaisse. With apologies to them, here is an explanatory note for the few who might be a little bemused by my simile. Bouillabaisse is the much beloved fish stew from the south of France, wherein many kinds of fish — including shellfish — are simmered and cooked along with a variety of vegetables, and flavoured with many kinds of herbs.)
I return to Lahore from holiday to discover that all the talk in fashionable social circles, and our opinionated media, is about how the writing is now on the wall for Mr Zardari. Apparently, his days in the Presidency are ‘numbered’. Of course this is nothing new. For the past six months at least, many an all-knowing media pundit has, on more than one occasion, confidently predicted his ‘imminent’ exit.
Like the religious junkie at Hyde Park corner, carrying a placard with the message, ‘repent, for the end is nigh’, it is mighty convenient to leave your predictions vague and not tied to an actual date. But why go as far as Britain? Did our own incomparable Dr D&G, in his monumental documentary of a few years ago, ‘The End of Time’, not work out from various mysterious signs that the one and only real Day of Judgment is also ‘imminent’?
This time round, some of these geniuses have been brave enough to set a date: November 28th, the day the NRO is finally buried. Will the president then fall on his proverbial sword? Don’t bet on it, I say. But what I can do is to make a prediction of my own: their refrain then will conveniently switch from ‘he is going’ to ‘he ought to go because, blah blah blah...’
My past reaction to such nonsense has usually been a bored yawn. For none of these geniuses ever satisfactorily answer the two questions any sane person will ask: “Will the president volunteer to resign, or will he be forced to do so? And, if the latter, who is going to do the forcing, and what will be the successful mechanism? Is it any different this time round? I do not think so. Those two questions still remain valid.
It is true that the president can do no right as far as our media is concerned. It is uniformly hostile. And that, to some extent, has been the case even since those early days of 2008 when Mr Zardari first unexpectedly rose to political power. Then it largely took the form of sullen silence or sceptical reticence. Today, the knives are out quite openly. Indeed, I sometimes get the impression — and it is a powerful one — that one particular media group is consciously embarked on a deliberate and sustained campaign to whip up public sentiment against the president, in whatever way it can.
This has two serious consequences. Firstly, there is the ‘follow the leader’ syndrome. When the most powerful media group in the country by far, takes up cudgels in this manner, the lesser players cannot afford to be left behind. For, there is nothing our public loves more than juicy political gossip. Secondly, when the result is that everyone ends up singing the same tune, our people, largely disinclined to use their own grey matter, treat as a fact what at best is media speculation and at worst wish fulfilling orchestrated rumour mongering. The recent furore over the Kerry-Lugar Bill (KLB) is a good example of what I am talking about here.
Serious consequences or not, politicians and others — and even the public — have to live stoically with this other side of the coin that is the precious democratic right of everyone to free speech. And that right extends to media groups, who have the freedom to air whatever politically partisan or otherwise biased and prejudiced views they choose to project.
That it is possible this freedom (like many others) is liable to abuse is never an argument to curtail it, except in so far as it is regulated by law. Nor is the fact that in our country anti-defamation laws against allegations and charges (often without due diligence), by individuals and state institutions, have proved ineffective, a good argument for using unorthodox means against this menace. Incidentally why are the defamation laws in our country so ineffective? Will the new judiciary do anything about this social evil now?
There is no option but to use sophisticated political means to counter those out to discredit you. But let us admit this is not either easy or simple. We all know the media thrives commercially on controversy and political and social campaigns that help boost audience ratings. If those choices are freely made I have no quibble, even though I may strongly disagree with the views projected. But sometimes the prima facie circumstantial evidence is too powerful and coincidental for a sane person to believe that that indeed is the case. Sometimes there is a powerful odour in the air of something more sinister afoot.
Media ethics is supposed to distinguish between paid advertisement and ‘news’ (and I include ‘opinion’ in the latter category). That, at least, is the theory, even though there is no escaping, anywhere, the phenomena of planted stories and ‘advertorials’ (for pay, or as a favour, or for a purpose). That our media today is freer than ever in our history is true enough, but has it completely shrugged off its past close affiliations with certain all-powerful elements of our permanent establishment? Of that the most charitable thing I will say is, “I am not so sure”.
One thing is for certain: the president will leave office only if he so wishes. And I see little evidence for that eventuality. Can he be forced out of office? On the past evidence we have of his implacable resolve in resisting pressure, only the alternatives of a military coup or impeachment will suffice. And neither is a realistic possibility at the moment.
What is more, it is my opinion that even a totally voluntary relinquishing of his office (let alone through any other method) will, for many obvious reasons, be a disastrous setback for the country’s fledgling democratic experiment. Heard the one about throwing the baby out along with the bathwater?
The writer is a businessman. A selection of his columns is now available in book form. Visit munirattaullah.com
Source
3 comments:
This article will benefit from a tag of Mir Shakil along with others. LUBP will need this archive very soon.
The question of NRO is of social justice and morality that an elite group of people are allowed keep themselves away from any judicial process for their alleged crimes.
But I don't think our bureaucracy, generals, feudal parties, corrupt capitalists , bhatta khors don't consider them selves as in need of any morality.
It is sad to see the media using its privilege of outreach to the masses to distort facts and present a picture of clash of institutions. On the day of the Supreme Court hearing on implementation of the NRO case, it seemed that the heavens were about to fall. The court’s decision to postpone the hearing till October 13 was like a prick of the needle in the media’s balloon prophesising a doomsday. Soon afterwards, the news channels, who had been reporting since morning that the court had rejected the government’s plea, had to lick the dust and amend their news, which were entirely opposite. Would it not be wise if the news reporters simply bide their time and wait for authentic information to emerge rather than jump at wrong conclusions and mislead the public?
Post a Comment
1. You are very welcome to comment, more so if you do not agree with the opinion expressed through this post.
2. If you wish to hide your identity, post with a pseudonym but don't select the 'anonymous' option.
3. Copying the text of your comment may save you the trouble of re-writing if there is an error in posting.