Editor's Choice

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Featured Post
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

"Let us build Pakistan" has moved.
30 November 2009

All archives and posts have been transferred to the new location, which is: http://criticalppp.com

We encourage you to visit our new site. Please don't leave your comments here because this site is obsolete. You may also like to update your RSS feeds or Google Friend Connect (Follow the Blog) to the new location. Thank you.


--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

Saturday 12 September 2009

How serious is Pakistan Army in its operation in FATA?

A critical analysis by BBC Urdu dot com:

باڑہ فوجی آپریشن اور پشتو فلموں کے نام

خیبر آپریشن

خیبر ایجنسی میں آپریشن جس علاقے میں ہورہا ہے وہ لشکر اسلام کے زیر اثر بتایا جاتا ہے۔

نوے کی دہائی میں پشتو فلم انڈسٹری پر جب زوال کا دور آیا تو ان دنوں پشتو فلموں کے بڑے بڑے عجیب و غریب نام ہوا کرتے تھے۔ یہ نام برائے نام ہوتے تھے جس کا بظاہر کوئی مطلب نہیں ہوتا تھا۔ جیسے ’ راشہ ماما زوئی دہ لیونئی دے‘ ( آجاؤ ماما تیرا بیٹا دیوانہ) سپئی لاکئی (کتے کی دم) ٹینگ شہ وغیرہ وغیرہ۔

آج کل قریب ایسے ہی پشتو فلموں کے نام ان حکومتی آپریشنز کو دیا جارہا ہے جو اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف جاری ہیں۔

یکم ستمبر کو خیبر قبائلی ایجنسی کے باڑہ سب ڈویژن میں حکومت کی جانب سے مبینہ شدت پسندوں تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا جو تاحال جاری ہے۔ اس آپریشن کو پشتو لفظ ’ بیا درغلم‘ یعنی ’پھر آرہا ہوں‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اسی علاقے میں ہونے والی فوجی کارروائی کو ’ درغلم‘ (آرہا ہوں) کا نام دیا گیا تھا۔

اول تو ان کارروائیوں پر شروع ہی سے لوگوں کے تحفظات رہے ہیں باالخصوص خیبر ایجنسی میں، کیونکہ ہر بار حکومت آپریشن کرتی ہے تو بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں کہ علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کردیا گیا اور انتظامیہ کی عمل داری بحال کردی گئی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد دوبارہ عسکریت پسند نکل آتے ہیں اور پھر سے دن دہاڑے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے اور سکیورٹی فورسز پر حملے کئے جاتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ان کارروائیوں کو ’ درغلم، بیا درغلم‘ کے عجیب و غریب نام دیکر اس سے ایک طرح سے مذاق کا عنصر بھی نکلتا ہے۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے ایک طرح کا یہ تاثر بھی مل رہا ہے کہ کیا حکومت اتنی غیر سنجیدہ ہوگئی ہے کہ ان کے پاس کسی کارروائی کو نام دینے کےلیے کوئی اچھا سا نام بھی نہیں؟

خیبر ایجنسی میں گزشتہ دو سالوں کے دوران یہ تیسرا بڑا آپریشن سمجھا جارہا ہے۔ اس سے پہلے دو ہزار سات اور آٹھ میں ہونے والی کارروائیوں میں حکومت کی جانب سے کامیابی کے جو دعوے کئے گئے تھے، وہ تو اب ثابت ہوگیا ہے کہ وہ صرف زبانی دعوے ہی تھے کیونکہ اگر وہ سنجیدہ کارروائیاں تھیں تو پھر اب آپریشن کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔

ایسے وقت جب یہ آپریشن جاری ہے تو بھی خیبر ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ طارق حیات خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اس مرتبہ یہ آپریشن شدت پسندوں کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گا۔ پولیٹکل ایجنٹ آخری بار ہونے والی کارروائی کے بارے میں کئی مرتبہ اس قسم کے الفاظ دہرا چکے تھے لیکن پھر کیا ہوا اس کے بارے میں سب لوگ جاتے ہیں۔

خیبر ایجنسی میں اس وقت یہ آپریشن جس علاقے میں ہورہا ہے وہ مبینہ شدت پسند تنظیم لشکر اسلام کے زیر اثر بتایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ہونے والی کاروائیوں میں بھی قریباً اسی تنظیم کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اکثر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خیبر ایجنسی میں سرگرم تنظیمیں لشکر اسلام، امر بالمعروف اور انصار الااسلام اتنے بااثر اور طاقت ور نہیں ہیں جتنی دیگر قبائلی علاقوں میں فوج کے خلاف برسر بیکار تحریک طالبان پاکستان یا دیگر تنظیمیں ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ان تنظیموں کو تو فرنٹیر کور اور خاصہ دار فورس کے ذریعے بھی قابو کیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ حکومت کے پاس کوئی واضح حکمت عملی موجود ہو۔

ان تنظیموں کا بظاہر کوئی بنیاد بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی واضح ایجنڈا ابھی تک سامنے آسکا ہے۔ اب تک جو اطلاعات سامنے آئی ہے ان کے مطابق تو ان تنظیموں کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ پیسے اور طاقت حاصل کرنا ہے۔ بعض تجزیہ نگار تو اس بات سے بھی اختلاف کرتے ہیں کہ ان گروپوں کو تنظیم کے نام سے یاد کیا جائے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے گروہ ہیں جو حکومت کی مدد کے بغیر نہیں بن سکتے۔ یہ باتیں بھی عام ہیں کہ ماضی میں ان تنظیموں کو حکومتی اداراوں کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔

خیبر ایجنسی کے برعکس سوات اور وزیرستان میں جو آپریشن شروع کئے گئے ہیں وہ اب تک بظاہر کامیاب رہے ہیں اور ان آپریشنز کو دیئے گئے نام بھی درست ہیں۔ سوات میں آپریشن کا ’راہ حق‘ کے نام سے آغاز ہوا اور آجکل جاری آپریشن ’راہ راست‘ کے ذریعے سے عسکریت پسندوں کو کسی حد تک راہ راست پر لایا گیا ہے۔

مبصرین کے مطابق سوات کی طرح اگر باڑہ میں چار دن کےلیے بھی کارروائی کی گئی تو پانچویں دن نہ منگل رہے گا اور نہ باغ۔ لیکن شاہد ابھی باڑہ کی باری نہیں آئی اسی وجہ سے ابھی صرف ’درغلم‘ یا ’بیا درغلم‘ کی باتیں ہورہی ہیں

Forty suspected militants killed in Bara operation
By Ibrahim Shinwari
Wednesday, 02 Sep, 2009
An army soldier carries a blindfold alleged militant, arrested during an offensive in the Khyber tribal region.—Photo by AP

LANDI KOTAL: At least 40 suspected militants were killed and 43 others captured in a new military offensive in the Bara area of Khyber tribal region on Tuesday. Helicopter gunships provided cover to troops.

The local administration imposed curfew in Bara tehsil in the morning before the operation, Biya Daraghlam (Here I come again), was launched.

In an earlier operation, named ‘Here I come’, the army did not succeed to enforce the writ of the government in Bara and the area remained under the control of the outlawed Lashkar-i-Islam.

Briefing journalists, Khyber Agency’s Political Agent Capt (retd) Tariq Hayat Khan said there was no time-limit for the new operation and it would continue till the achievement of all its objectives.

He said the operation had been launched at the request of the people of Bara whose lives had been made miserable by anti-social elements. He said the curfew would be lifted only after the security forces had gained control of the situation.

Capt Hayat said that peaceful people of the area would not be harmed, but those who had challenged the writ of the government would be severely dealt with.

Referring to deaths of security personnel in recent attacks, he said: ‘It’s payback time and we are going to pay back with interest.’

He said the operation was not only against the Lashkar-i-Islam, but against all groups, organisations and individuals who had challenged the government.

He said the people who had been detained would be released if they proved their innocence.

He refuted allegations that some captured people had been shot at close range and said that militants were killed only when they put up resistance.

Military commander for Khyber Agency Brig Fayyaz was present at the briefing. Two leaders of the banned group, Murad and Abdur Rehman, were among those killed. Security personnel blocked all points of entry to Bara and the local bazaar was closed.

Troops operated mainly in Shalobar, Qamakhel and Malikdinkhel areas.

Ali Hazrat Bacha adds from Peshawar: Police arrested at least 20 suspected militants who were fleeing towards Peshawar after the operation was launched in Bara.

SSP (Operation) Abdul Ghafoor Afridi said around 500 policemen had been deployed at 35 points on the Kohat road, Bara road and around Hayatabad Township.

According to sources, police intended to launch an operation in the outskirts of Peshawar against people who were supporting militants and criminals.

’منگل باغ کی دھمکی،300 خاصہ دار غیرحاضر‘

منگل باغ

منگل باغ نے خاصہ داروں کو ڈیوٹی پر جانے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی

قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ لشکرِ اسلام کے سربراہ منگل باغ کی دھمکیوں کے بعد حکومتی حکم کے باوجود خاصہ فورس کے تین سو سے زائد اہلکار ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوئے ہیں۔

خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ طارق حیات خان نے بی بی سی کو بتایا کہ لشکرِ اسلام کے سربراہ منگل باغ نے خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کو دھمکی دی تھی کہ وہ نوکریوں پر حاضر نہ ہو۔

ان کے مطابق اس کے بعد پولیٹیکل انتظامیہ نے خاصہ دار فورس کے تمام اہلکاروں کو حکم دیا کہ وہ سنیچر کی دوپہر بارہ بجے تک حاضر ہوجائیں بصورت دیگر ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

پولیٹیکل ایجنٹ کا مزید کہنا تھا کہ اہلکاروں میں سے تین سو سے زائد مقررہ وقت پر ڈیوٹیوں پر حاضر نہیں ہوئے جس کے بعد انہیں نوکریوں سے فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان اہلکاروں کی خالی آسامیوں پر اب نئی بھرتیاں کی جائیں گی۔ طارق حیات کے بقول اہلکاروں کےڈیوٹی پر حاضر نہ ہونے سے علاقے میں جاری فوجی کارروائیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

پاکستانی فوج نے خیبر ایجنسی میں گزشتہ دس دنوں سے لشکرِ اسلام کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے جس میں اب تک ایک سو سات کے قریب شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ہے تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے شدت پسندوں کی ہلاکتوں کے بارے میں حکومت مبالغہ آرائی سے کام لے رہی ہے۔ ان کے بقول اب تک دو درجن کے قریب افراد کو ہلاک کیا گیا ہے جن میں کئی شہری بھی شامل ہیں۔

صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں طالبان کی دھمکیوں اور کارروائیوں کے بعد درجنوں پولیس اہلکاروں نے نوکریاں چھوڑ دی تھیں اور اب خیبر ایجنسی میں کسی شدت پسند تنظیم کی جانب سے دھمکی پر اتنی بڑی تعداد میں اہلکاروں کا نوکریاں کرنے سے انکار اس نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ شدت پسندی سے متاثر قبائلی اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درجنوں اہلکاروں نے بھی نوکریاں چھوڑ دی ہیں جبکہ لوگ نئی بھرتیوں میں بھی پہلے کی طرح گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے

No comments:

Post a Comment

1. You are very welcome to comment, more so if you do not agree with the opinion expressed through this post.

2. If you wish to hide your identity, post with a pseudonym but don't select the 'anonymous' option.

3. Copying the text of your comment may save you the trouble of re-writing if there is an error in posting.