پھولنگر:عورتوں کی درخواست
لاہورکے نواحی علاقے پھولنگر (بھائی پھیرو) کےگاؤں جمبر کلاں کی تین خواتین نے ان مقامی لوگوں کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے لیے درخواست دے دی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر انہیں برہنہ کر کے مرکزی شاہراہ پرکھڑا کر دیا تھا۔
شہناز عرف سراجو کے وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی درخواست میں خواتین کی سرعام بےحرمتی کرنے، ان کے گھر زبردستی گھس کر لوٹ مار کرنے سمیت سنگین دفعات کی درخواست پولیس کو دی ہے اور اگر پولیس نے مقدمہ درج نہ کیا تو وہ عدلیہ سے رجوع کریں گے۔
پولیس نے ان خواتین کی درخواست پر تاحال کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے البتہ ان خواتین کے خلاف جسم فروشی کا اڈا چلانے کا جو مقدمہ درج کیا گیا تھا سول جج نے ان کی اہم دفعات حذف کرتے ہوئے ان تینوں کو ضمانت پر رہا کردیا ہے۔
شہناز عرف سراجو کا گھر ایک کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے گھر میں موجود ریفریجریٹر سے لے کر پنکھے اور چھت کے بلب تک لوٹ لیے گئے۔
جمبرگاؤں کی متاثرہ گلی میں پہنچے تو دور سے ایسا لگا کہ کوئی جنازہ جارہا ہے قریب جاکر دیکھا تو پانچ چھ افراد فریج اٹھائے بھاگ رہے تھے
دیہاتی محمد بوٹا
تمام دروازے چوکھٹوں سمیت اکھاڑ لیے گئے۔ ایک ہمسائے نے بتایا ہے کہ شہناز عرف سراجو نے اپنی بیٹی کے لیے تقریباً پانچ لاکھ روپے مالیت کا جو جہیز اکٹھا کیا تھا وہ بھی لوٹ لیا گیا ہے۔
مستری محمد بوٹا نے کہا کہ وہ شام کو جمبرگاؤں کی متاثرہ گلی میں پہنچے تو دور سے ایسا لگا کہ کوئی جنازہ جارہا ہے، قریب جاکر دیکھا تو پانچ چھ افراد فریج اٹھائے بھاگ رہے تھے۔
شہناز عرف سراجو کا گھر جس گلی میں قائم ہے اس میں رہائش پذیر ایک سکول ٹیچرماسٹر مرزا حنیف بیگ نے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی شہناز عرف سراجو کو کہہ دیا تھا کہ اس کے گھر پر حملہ ہونے والا ہے لیکن اس نے ان کی تنبیہہ پر کان نہ دھرا۔
انہوں نے بتایا کہ جب بلوائی ان کے گھر گھسے تو وہ گھبرا کراپنی دومنزلہ چھت سے ہمسائے کی نچلی چھت پر کودی اور پھر گلی میں چھلانگ لگائی لیکن پکڑی گئی۔
ماسٹر حنیف بیگ گاؤں کے ان متعدد لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے عورتوں کی برہنہ پریڈ کا منظر دیکھا لیکن وہ کسی تھانے کچہری میں گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ایڈیشنل ایس پی قصورجاوید مقامی پولیس چوکی میں بیٹھے ملے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہیں ایسی کوئی گواہی یا ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر وہ کہہ سکیں کہ عورتوں کو برہنہ کیا گیا ہے یا ان کے گھر میں لوٹ مار کی گئی البتہ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو واضح ہے کہ عورتیں قحبہ خانہ چلاتی رہی ہیں۔
ایک شخص محمد صدیق نے کہا کہ یہ عورتیں محلے کی لڑکیوں کو ورغلا کر غلط راستے پر لگا رہی تھیں اور ان کے ساتھ جو ہوا وہ درست ہے۔
بلوائیوں کی قیادت کرنے والے بااثر سیاسی افراد نے اعلان کیاتھا کہ اگر کسی نے ان عورتوں کا ساتھ دیا یا ان کے حق میں گواہی دینے کی کوشش کی تو اس کا براحشر کیا جائےگا
خواتین کے وکیل میاں فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب سول جج نے عورتوں کو ضمانت پر رہا کیا تو علاقے کے بااثرافراد نے عدالت کے احاطے میں ہی دھمکی دی کہ اگر یہ عورتیں واپس موضع جمبر گئیں تو انہیں مار دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے یہ عورتیں روپوشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
پتوکی عدالت کے احاطے میں موجود شہناز عرف سراجو نے اپنا سر دکھایا جس کے بال کٹے ہوئے تھے اور چہرے پر نیل صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شہناز عرف سراجو نے کہا ’ہمیں الف ننگا کردیا تھا انہیں خدا کا خوف نہیں رہا تھا۔‘
مقامی لوگوں نے بتایا کہ سراجو کو ننگا کرنے کے علاوہ اس کے چہرے پر کالک ملی گئی تھی اور گلے میں جوتوں کا ہار ڈال کر گلی میں پھرایا گیا اور بچوں کو چھڑیاں پکڑا کر کہا گیا کہ انہیں چبھوتے ہوئے آگے کی طرف لے کر چلو۔
مقامی لوگوں کے بقول بلوائیوں کی قیادت کرنے والے بااثر سیاسی افراد نے اعلان کیا تھا کہ اگر کسی نے ان عورتوں کا ساتھ دیا یا ان کے حق میں گواہی دینے کی کوشش کی تو اس کا براحشر کیا جائےگا۔
ان عورتوں کے کپڑے پھاڑ کر جب ننگا کیا جارہا تھا تو گاؤں میں متعدد ایسے افراد موجود تھے جو اس حرکت کو غلط سمجھنے کے باوجود آگے بڑھ کر ان عورتوں کی مدد نہیں کرسکے۔
اسی گاؤں میں ایک گھرانہ ایسا بھی ہے جسے اس کے مال اسباب کے لحاظ سے غریب ترین کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ پورا گھر پیوند لگے کپڑے کی ایک چھوٹی سے جھونپڑی میں رہتا ہے۔
شہناز بی بی کی ساتھیوں میں سے ایک کو جب مبینہ طور پر برہنہ کردیا گیا تو اس نے خود کو لوگوں کی نظروں سے بچانے کے لیے ایک کے بعد ایک ہمساؤں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن کوئی دروازہ نہ کھلا جس پر وہ بھاگ کر اسی جھونپڑی کے سامنے جاکر گرگئی۔
جھونپڑی کے غریب مالک نے بی بی سی کو اپنا نام تو نہیں بتایا لیکن کہا کہ وہ عورت کو اندر لے گیا اس کی بیوی نے اپنا جھگا (قمیض) اس کو پہنایا آنسو پونچھے، اسی دوران پولیس آئی اور اسے اپنے ساتھ لے گئی
No comments:
Post a Comment
1. You are very welcome to comment, more so if you do not agree with the opinion expressed through this post.
2. If you wish to hide your identity, post with a pseudonym but don't select the 'anonymous' option.
3. Copying the text of your comment may save you the trouble of re-writing if there is an error in posting.