Editor's Choice

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Featured Post
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

"Let us build Pakistan" has moved.
30 November 2009

All archives and posts have been transferred to the new location, which is: http://criticalppp.com

We encourage you to visit our new site. Please don't leave your comments here because this site is obsolete. You may also like to update your RSS feeds or Google Friend Connect (Follow the Blog) to the new location. Thank you.


--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

Thursday, 17 September 2009

Wha did Taliban do to Pir Samiullah's deadbody?


’پیر سمیع اللہ کی لاش کا اب تک نہیں معلوم‘

پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں پچھلے کئی سالوں سے جاری تشدد کی لہر نے نہ صرف لوگوں کے ذہنوں میں ملک کی ’سلامتی‘ کے بارے میں خدشات پیدا کیے ہیں بلکہ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے المیے متاثرہ افراد کی زندگیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نتھی ہو چکے ہیں۔ طالبان اور سکیورٹی فورسز کے مابین جاری لڑائی سے جنم لینے والے انسانی المیوں کے مختلف پہلووں کو صحافت کے تنگ دامن میں یا تو سرے سے جگہ ہی نہیں مل سکی اور اگر ملی بھی تو اس طرح نہیں جس طرح سے یہ واقعات رونما ہوئے اور یوں حقیقی کہانیاں صحافتی مقابلے کی دوڑ کے ملبے میں کہیں دفن ہوگئیں۔

پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار عبدالحئی کاکڑ جنگ زدہ افراد یا خاندانوں پر بیتی ہوئی انہی کہانیوں کی کھوج میں ہیں جنہیں بی بی سی اردو ڈاٹ کام ایک سیریز کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ اس سلسلے کی پانچویں کہانی۔

اکبر علی، روڈ ی نگار، منگل ڈاگ تحصیل مٹہ سوات

جون دو ہزار آٹھ میں طالبان اور ہمارے یعنی پیر سمیع اللہ گروپ کے درمیان اختلافات شروع ہوگئے تھے۔ سوات کے باقی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان ہمارے علاقے میں بھی اپنی رٹ قائم کرنا چاہتے تھے۔ طالبان کی جانب سے لوگوں کے گلے کاٹنا، زبردستی داڑھی رکھوانا، اور سرعام کوڑے مارنے کا عمل پیر سمیع اللہ کو پسند نہیں تھا۔

پیر سمیع اللہ

طالبان کا خیال تھا کہ لوگ مزاحمت نہیں کریں گے اور وہ آسانی سے پیر سمیع اللہ کو اٹھاکر لے جائیں گے

انہوں نے طالبان کے علاقے میں آمد کی مخالفت کی۔ جب طالبان کے کمانڈر ابنِ یامین کو پتہ چلا تو وہ درجنوں مسلح ساتھیوں کے ہمراہ پیر سمیع اللہ کو اٹھانے کے لیے ہمارے گاؤں آئے۔ان کا خیال تھا کہ ان کی دہشت کی وجہ سے لوگ مزاحمت نہیں کریں گے اور وہ آسانی سے پیر سمیع اللہ کو اپنے ساتھ اٹھاکر لے جائیں گے۔ لیکن لوگوں نے مزاحمت کی اور صبح سے رات تک ہمارے درمیان جھڑپ جاری رہی۔

لوگوں نے طالبان کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس جھڑپ میں پیر سمیع اللہ کے چھوٹے بھائی اٹھارہ سالہ عمران سمیت ہمارے چار ساتھی زخمی ہوگئے تھے۔ پیر صاحب کے چچا، جو ان کے مخالف تھے، ان کے زخمی بھائی کو علاج کے لیے لے جارہے تھے کہ طالبان نے انہیں راستے میں روک لیا۔ جب ابنِ یامین کو پتہ چلا کہ یہ پیر سمیع اللہ کے بھائی ہیں تو اس نے اس سے زخمی حالت میں گاڑی سے نکال کر سڑک پر پھینک دیا۔ وہ اس کے سینے پر زور زور سے کودتا رہا پھر اسے دو گولیاں سینے اور دو سر میں ماردیں۔ جب میں نے لاش دیکھی تو پورے جسم پر خنجروں کے نشان تھے۔

اس جھڑپ کے بعد پیر سمیع اللہ نے علاقے کے لوگوں کو بلایا اور ایک باقاعدہ لشکر تشکیل دیا جس میں چھ سو سے زائد مسلح رضاکار شامل ہوگئے۔ اس دوران فوج کے ساتھ بھی رابطہ ہوا جس نے ہمیں تقریباً پینتالیس کلاشنکوف، کئی بندوقیں اور کارتوس دیے۔ حکومت نے وعدہ کیا کہ طالبان کے خلاف لڑائی میں لشکرکی مدد کی جائے گی۔

طالبان نے گاؤں والوں کو پیغام بھیجا کہ اگر انہوں نے پیر سمیع اللہ کی حمایت ترک نہیں کی تو یرغمالیوں کو قتل کردیا جائے گا۔ اس دھمکی کے بعد لشکر میں شامل رضاکار ایک ایک کرکے الگ ہوتے گئے۔ تیرہ دسمبر جمعہ کی رات کو جب طالبان نے حملہ کیا تو اس وقت لشکر میں سو کے قریب مسلح رضاکار رہ گئے تھے۔

سوات کے علاقے سپین سر جس کی سرحد ضلع دیر کے ساتھ ملتی ہے میں تقریباً ہم نے کئی مہینے تک ایک بھی طالب کو گھسنے نہیں دیا۔ اس دوران اچانک ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے ہماری قوت کو کمزور کردیا۔ ہمیں مینگورہ اور باقی علاقوں سے زندگی کی بنیادی ضروریات لانے لے جانے کے لیے جس واحد راستے سے گزرنا تھا وہ مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں تھا۔ ایک دن شوگر ملوں میں دیہاڑی پر کام کرنے والے ہمارے گاؤں کے لوگ جا رہے تھے کہ طالبان نے انہیں ٹرکوں سے اتار کر یرغمال بنالیا۔

طالبان نے گاؤں والوں کو پیغام بھیجا کہ اگر انہوں نے پیر سمیع اللہ کی حمایت ترک نہیں کی تو یرغمالیوں کو قتل کردیا جائے گا۔ اس دھمکی کے بعد لشکر میں شامل رضاکار ایک ایک کرکے الگ ہوتے گئے۔ تیرہ دسمبر جمعہ کی رات کو جب طالبان نے حملہ کیا تو اس وقت لشکر میں سو کے قریب مسلح رضاکار رہ گئے تھے۔

ہمارے پاس ایک واکی ٹاکی تھا جس سے ہمیں طالبان کے آپس میں واکی ٹاکی پر ہونے والی بات چیت سنائی دیتی تھی۔ ہمیں پہلے سے معلوم تھا کہ طالبان ایک بڑے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے باجوڑ، وزیرستان اور کچھ ارود بولنے والے طالبان کو بھی مدد کے لیے بلایا لیا تھا۔

رات کا وقت تھا کہ دستی بموں، راکٹ لانچروں، میزائلوں، کلاشنکوفوں اور سنائپرز سے لیس تقریباً آٹھ سو کے قریب طالبان نے ابنِ یامین اور کمانڈر فاتح کی سربراہی میں گاؤں پرحملہ کردیا۔ وہ توپچی سے گولے بھی داغتے رہے۔ پوری رات ہمارے درمیان جھڑپ جاری رہی۔ اگلے دن بھی شدید فائرنگ کاتبادلہ ہوتا رہا لیکن اس دوران مقامی لشکر کے سبھی لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ فوج بھی وعدے کے مطابق ہماری مدد کو نہیں پہنچی۔ صرف چار مرتبہ ہیلی کاپٹر آئے اور پہاڑیوں پر شیلنگ کی جس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی طالبان پسپا ہوئے۔ پتہ نہیں فوج کی گولی طالبان کو کیوں نہیں لگتی۔ (اس وقت اکبر علی کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی)

آخر میں ہم صرف بارہ لوگ باقی رہ گئے تھے جو سبھی پیر صاحب کے رشتہ دار تھے۔ پیر صاحب میرے پھوپھی کے بیٹے ہیں۔ ہم نو افراد پیر صاحب کے ساتھ ان کے گھر میں مزاحمت کررہے تھے جبکہ باقی چار افراد مکان کی دوسری طرف لڑرہے تھے۔ جب طالبان مکان کے قریب آئے تو پیر صاحب نے صحن کے بیچ میں آ کر کلاشنکوف سے طالبان پر فائرنگ شروع کردی۔ میں ان کے قریب تھا کہ اس دوران سنائپر سے انہیں نشانہ بنایا گیا اور گولی ان کے گردن میں لگ گئی اور وہ گر پڑے۔

ہم نو افراد پیر صاحب کے ساتھ ان کے گھر میں مزاحمت کررہے تھے جبکہ باقی چار افراد مکان کی دوسری طرف لڑرہے تھے۔ جب طالبان مکان کے قریب آئے تو پیر صاحب نے صحن کے بیچ میں آ کر کلاشنکوف سے طالبان پر فائرنگ شروع کردی۔ میں ان کے قریب تھا کہ اس دوران سنائپر سے انہیں نشانہ بنایا گیا اور گولی ان کے گردن میں لگ گئی اور وہ گر پڑے۔

ہم نے ان کی تینوں بیویوں اور بچوں کو اندر جانے کو کہا لیکن اس وقت تک ہم طالبان کے گھیرے میں آچکے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ پیر صاحب اور ان کے بال بچوں کو ہر حال میں یہاں سے نکالنا ہے۔ ہم نے اپنے چار ساتھیوں سے کہا کہ وہ زبردست فائرنگ شروع کردیں تاکہ طالبان کو یہ اندازہ ہوجائے کہ گھر میں مسلح لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

جب انہوں نے فائرنگ شروع کی تو اس دوران ہم نے پیر صاحب اور ان کے گھر والوں کو نکال دیا۔ ہم انہیں زخمی حالت میں چار مڑ کے علاقے لے گئے تاکہ وہاں پر ایک ڈسپنسر ان کو ابتدائی طبی امداد فراہم کر دیں اور بعد میں ہم انہیں ضلع دیر لے جائیں گے۔

وہاں پہنچ کر ان کی مرہم پٹی کروائی لیکن بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ جب تک وہ زندہ تھے انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ’مجھے اپنی قوم اور حکومت نے دھوکہ دیا‘۔ اب ہمیں ان کے دفنانے کی فکر لاحق ہوئی۔ ہم نے ان کی میت اٹھائی اور منگل ڈاگ سے کوئی آٹھ کلومیٹر دور سولا تنڑ گاؤں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلےگئے۔

دس گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد ہم ضلع دیر پہنچ گئے جہاں پر ہمیں پتہ چلا کہ طالبان کمانڈر نے سو لاتنڑ گاؤں جاکر پیر صاحب کی لاش کا پتہ لگایا ہے اور لاش نکال کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ پیر صاحب کی لاش طالبان نے اگلے ہی دن تحصیل مٹہ کے گوالیرئی کے بازار میں سرعام لٹکا دی۔ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ پیر صاحب کو کہاں دفنایا گیا ہے۔

رات کا وقت تھا۔ ہم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی جس میں چند رشتہ داروں اور ان کے کئی مریدوں نے شرکت کی۔ بعد میں ہم نے انہیں اپنے رشتہ دار کے کھیت میں دفن کردیا۔ دفنانے کے بعد ہم نے قبر زمین کے ساتھ ہموار کردی تاکہ کسی کو اس پر قبر کا گمان نہ ہو۔

ہم چار ساتھی رات ہی کو وہاں سے پہاڑی راستوں کے ذریعے دیر روانہ ہوگئے۔ پہاڑوں پر چار فٹ برف پڑی ہوئی تھی۔ کھانے پینےکی کوئی چیز ہمارے ساتھ نہیں تھی۔ ہمیں جب پیاس لگی تو پانی پینے کا برتن بھی نہیں تھا تو ہم نے اپنے بوٹ نکال کراس میں پانی پیا۔

دس گھنٹے کی پیدل مسافت کے بعد ہم ضلع دیر پہنچ گئے جہاں پر ہمیں پتہ چلا کہ طالبان کمانڈر نے سو لاتنڑ گاؤں جاکر پیر صاحب کی لاش کا پتہ لگایا ہے اور لاش نکال کر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ پیر صاحب کی لاش طالبان نے اگلے ہی دن تحصیل مٹہ کے گوالیرئی کے بازار میں سرعام لٹکا دی۔ طالبان نے لوگوں کے سامنے پیر صاحب کے دو اور ساتھیوں کے گلے کاٹ دیے اور ان کی لاشیں بھی لٹکادیں۔ دو گھنٹے تک لٹکانے کے بعد انکی لاشیں اتاردی گئیں اور پیر صاحب کو کسی نامعلوم مقام پر دفنادیا۔ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ پیر صاحب کو کہاں دفنایا گیا ہے۔

بعد میں طالبان نے میری اور میرے دوسرے ساتھیوں کی تلاش شروع کردی۔ انہوں نے میرے چھوٹے بھائی رحمت اللہ کو بھی اس لیے اغواء کرکے قتل کردیا کہ شاید ہم اب بھی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن طالبان کو کیا پتہ کہ حکومت کو ہم یاد ہی نہیں ہیں۔ میں اس وقت بھی روپوشی کی زندگی گزار رہا ہوں۔

2 comments:

Unknown said...

How can u say that maulana ashraf tahiri and others are involved in this crime do u have any proof??????????????

Unknown said...

bas yahi kuhh ab talban ne ,dmishq sham, maen hazrat hajar bin adi (rz) k sath kiya. allah in ko gharat kare.

Post a Comment

1. You are very welcome to comment, more so if you do not agree with the opinion expressed through this post.

2. If you wish to hide your identity, post with a pseudonym but don't select the 'anonymous' option.

3. Copying the text of your comment may save you the trouble of re-writing if there is an error in posting.