’طالبان کی پشت پناہی نہ کی جاتی تو ان کا صفایا کر دیتے‘

’فوج کو خبر ہونے تک طالبان گھر کا محاصرہ کر چکے تھے‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں پچھلے کئی سالوں سے جاری تشدد کی لہر نے نہ صرف لوگوں کے ذہنوں میں ملک کی ’سلامتی‘ کے بارے میں خدشات پیدا کیے ہیں بلکہ اس کی کھوکھ سے جنم لینے والے المیے متاثرہ افراد کی زندگیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نتھی ہو چکے ہیں۔ طالبان اور سکیورٹی فورسز کے مابین جاری لڑائی سے جنم لینے والے انسانی المیوں کے مختلف پہلووں کو صحافت کے تنگ دامن میں یا تو سرے سے جگہ ہی نہیں مل سکی اور اگر ملی بھی تو اس طرح نہیں جس طرح سے یہ واقعات رونما ہوئے اور یوں حقیقی کہانیاں صحافتی مقابلے کی دوڑ کے ملبے میں کہیں دفن ہوگئیں۔
پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار عبدالحئی کاکڑ جنگ زدہ افراد یا خاندانوں پر بیتی ہوئی انہی کہانیوں کی کھوج میں ہیں جنہیں بی بی سی اردو ڈاٹ کام ایک سیریز کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ اس سلسلے کی دوسری کہانی۔
اکرام اللہ (فرضی نام)، گوالیرئی، تحصیل مٹہ، سوات
’’یہ چھبیس اکتوبر دو ہزار آٹھ کی صبح کا واقعہ ہے۔ گوالیرئی گاؤں کی مسجد میں ستر کے قریب مقامی قبائلی رہنما طالبان کے نمائندے ملا شمشیر کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اکھٹے ہوئے تھے۔ مذاکرات کے دوران یہ طے پایا کہ طالبان آئندہ گاؤں میں داخل نہیں ہونگے البتہ انہیں سڑک پر سے گزرنے کی اجازت ہوگی اور مشران نے طالبان کی یہ شرط مان لی کہ وہ فوج سے ملاقات کرکے انہیں گاؤں میں آنے سے منع کریں گے۔ قرآن مجید کو گواہ بنا کر درمیان میں رکھا گیا اور ملا شمشیر نے آخری دعا کردی۔
دو دن بعد انہوں نے ہم میں سے دو مشران کوگولیاں ماردیں اور انہیں باہر بجلی کے کھمبوں پر لٹکادیا۔ بعد میں انہوں نے تین یرغمالی مشران کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کو طالبان سے راضی نامہ کرنے پر قائل کریں۔ مشران نے گاؤں جا کر لوگوں کے سامنے دامن پھیلا پھیلا کر انہیں طالبان سے صلح کرنے پر راضی کرا لیا۔
اکرام اللہ
دعا کے بعد ملا شمشیر باہر نکل گئے اور مشران فوجی حکام سے مذاکرات کا طریقہ کار طے کرنے میں مصروف ہوگئے کہ چند منٹوں کے بعد ملا شمشیر مسجد میں دوبارہ داخل ہوئے اور کہا کہ ’امیر صاحب آگئے ہیں وہ تم لوگوں سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے‘۔ تھوڑی دیر بعد ابنِ یامین، خوگ، غزنوی نامی طالبان کمانڈر اپنے تیس کے قریب ساتھیوں کے ہمرا جوتوں کے ساتھ ہی مسجد میں داخل ہوگئے۔
ان کے پاس کلاشنکوفیں، جی تھری بندوقیں تھیں اور انہوں نے اپنے جسموں کے ساتھ گرینیڈ اور دیگردھماکہ خیز مواد باندھ رکھا تھا۔ ابن یامین نے داخل ہوتے ہی اپنے ایک رشتہ دار ایوب سپین دادا پر کلاشنکوف کا برسٹ چلا دیا۔اس کے ساتھ ہی طالبان نے جرگے پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ گولیوں کے شور میں کسی کی بھی آواز سنائی نہیں دے رہے تھی۔ جب فائرنگ میں کمی آئی تو میں نے دیکھا کوئی کراہ رہا ہے، کوئی مردہ حالت میں، کوئی مسجد کے ستون کے پیچھے چھپا اور بعض لوگ کسی کونے میں گھٹڑیوں کی صورت میں بیھٹے ہوئے ہیں۔اس موقع پر پانچ افراد ہلاک اور سات زخمی ہوگئے۔طالبان نے باقی لوگوں پر بندوقیں تان کر انہیں یر غمال بنایا۔
انہوں نے سپین دادا کے چھوٹے بھائی بہر مند خان کو قتل کرنے کے بعد پاؤں سے پکڑ کر باہر مسجد کی صحن میں پھینک دیا اور ان کے دوسرے بھائی بر کمال کو ابنِ یامین نے زندہ پکڑ کر ان سے کہا کہ ’وہ تم ہی تھے جس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ میں تمھاری آنکھیں نکال دونگا‘۔ یہ کہنے کے بعد اس نے بر کمال کی آنکھوں پر کلاشنکوف کی نال رکھی اور دو برسٹ مار دیے۔
اس کے بعد طالبان نے اندر آکر ایوب سپین داد اور ایک اور قبائلی رہنما کی لاش اٹھائی اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر انہیں باہر ایک درخت پر لٹکادیا۔ابھی ہم ساٹھ سے زائد لوگ اندر ہی یرغمال تھے کہ باہر سے شدید فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ ہمیں ڈر لگا کہ کہیں گاؤں والوں نے ہماری مدد کے لیے طالبان پر حملہ نہ کردیاہو۔ ہمیں خوف تھا کہیں طالبان ہم سب کو مار نہ دیں۔
گاؤں میں جو دس سے زائد لوگ طالبان کو مطلوب تھے ان پر ایک ایک لاکھ روپے یا ایک کلاشنکوف دینے کا جرمانہ عائد کیا گیا جو انہوں نے بعد میں ادا بھی کر دیا۔
اکرام اللہ
یہ سلسلہ دس سے ایک بجے تک جاری رہا۔ اس کے بعد طالبان ساٹھ سے زائد یر غمالی مشران کو اپنے ہمراہ لے گئے اور ہمیں گاؤں سے تقریباً دو کلومیٹر دور اغل نامی پہاڑی علاقے کی طرف لے گئے۔ وہاں پر ہمیں ایک سکول میں رکھا گیا۔ وہ ہر وقت ہمیں مارتے تھے۔ خوفزدہ کرنے کے لیے ہمارے سامنے چھریاں تیز کرتے اور آ کر کہتے آج اس کو اور کل فلاں کو ذبح کرنے کی باری ہے۔
دو دن بعد انہوں نے ہم میں سے دو مشران کوگولیاں ماردیں اور انہیں باہر بجلی کے کھمبوں پر لٹکادیا۔ بعد میں انہوں نے تین یرغمالی مشران کو اس شرط پر چھوڑ دیا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کو طالبان سے راضی نامہ کرنے پر قائل کریں۔ مشران نے گاؤں جا کر لوگوں کے سامنے دامن پھیلا پھیلا کر انہیں طالبان سے صلح کرنے پر راضی کرا لیا۔
اس کے بعد ہمیں چھوڑ دیا گیا۔ گاؤں میں جو دس سے زائد لوگ طالبان کو مطلوب تھے ان پر ایک ایک لاکھ روپے یا ایک کلاشنکوف دینے کا جرمانہ عائد کیا گیا جو انہوں نے بعد میں ادا بھی کر دیا۔ جب ہم واپس آئے توگاؤں والوں نے بتایا کہ پہلے دن جب وہ جاں بحق ہونے والے افراد کو دفنانے میں مصروف تھے کہ فوجی ہیلی کاپٹروں نے آکر فائرنگ کی جس میں تین افراد زخمی ہوگئے۔ جو لوگ باقی میتوں کو غسل دینے میں مصروف تھے وہ بھی بھاگ گئے۔
ہمارے گاؤں کے قریب پیر سمیع اللہ کا گاؤں ہے۔ وہاں پر جب لوگوں کو پتہ چلا کہ گوالیرئی پر طالبان نے حملہ کردیا تو انہوں نے لشکر بنایا اور ہماری طرف روانہ ہوگئے لیکن جب انہوں نے گاؤں پر ہیلی کاپٹروں کو شیلنگ کرتے دیکھا تو وہ واپس لوٹ گئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہماری فوج اور خفیہ ادارے طالبان کی پشت پناہی نہ کرتے تو ہم سوات کے لوگ ان مٹھی بھر افراد کا صفایا کردیتے۔‘
The death of a 'bad Talib'

Gul Bahadur, a 'good Talib', enjoys the support of government agencies and of Mullah Omer. Maulana Sirajuddin Haqqani, the son of senior Afghan Jihadi Jalaluddin Haqqani, follows the same policy.
Some 'good Taliban' commanders, backed by Pakistani agencies, are trying to appoint some pro-government commander as the head of TTP. But members of the al-Qaeda and the Punjabi Taliban, who have good contacts with the TTP, have rushed to the area to appoint the new chief.
Hakimullah Mehsud is the strongest contender for the slot but Mufti Waliur Rehman is also not far behind in the race to succeed Baitullah.
According to a report, the ISI provided the Central Intelligence Agency with the requisite information needed to strike Baitullah Mehsud, as he was a 'bad Talib'. But will Pakistan help the CIA target other wanted militants, including Mullah Nazir, Hafiz Gul Bahadur or Sirajuddin Haqqani, who are considered 'good Talibans'?
Some relevant comments:
A view for the USA
The Pakistani ISI and military want the Taliban as clients, not the other way around. There are, reportedly, plenty of convinced Islamists in uniform, but Pakistan's national objectives are all about India (as they always have been) and suppressing terrorism within Pakistan itself. This is new. The Pakistani Taliban's violent subversion in Pakistan has compromised what had been a long sponsorship of radical Islamist groups by the Pakistani security services. With Musharraf having put Kashmir on the back burner and the Americans in Afghanistan, the more bloodthirsty Islamists have seen the seizure of more territory in Pakistan itself as their best option.
It's hard to tell how much that has been changed by the Pakistani army's offensive in Swat and American decimation of factional Islamist leadership. Having said that, what I'd expect the Pakistani security services to do in response to an American withdrawal from Afghanistan is the reverse of Lindholm's prediction; they'd negotiate with Taliban factions to desist from further adventures within Pakistan in exchange for support of their effort to regain power in Afghanistan, and to take their al Qaeda "guests" with them. In brief, they'd seek to export their terrorism problem.
A Taliban movement exercising de facto control over much of the Pashtun-majority areas of Afghanistan but purged of al Qaeda elements can't be said to threaten our security. Taliban hosting al Qaeda elements who never leave Afghanistan are no threat either. It's a Taliban receiving intelligence and logistical support from Pakistan's security services, controlling Afghan territory and hosting al Qaeda elements able to use it as a sanctuary, coming and going as they please that we cannot permit. A military coup in Pakistan wouldn't be required for such a situation to arise.