Research by the BBC Urdu's service into the growing strength of Taleban militants in north western Pakistan shows that only 38% of the area remains under full government control.
This map of the area is a snapshot of the current situation. However, with ongoing fighting between the Pakistan armed forces and the Taleban the situation on the ground could change in the future.
Methodology
This map charting the extent of Taleban control and presence in the north west of Pakistan is based on research carried out by the BBC's Urdu service.
The area concerned comprises the North West Frontier Province (NWFP) of Pakistan and the Federally Administered Tribal Areas (FATA).
The province has 24 districts, while FATA comprises seven tribal agencies and six frontier regions.
Evidence of Taleban control or significant presence in the region was established by studying BBC Urdu news reports over the last 18 months. This information was then verified with officials and contacts on the ground.
From the research, a clear pattern of Taleban-related militancy emerged.
When the Taleban identify an area to concentrate on, they start making their presence felt by bombing music shops and girls schools. This is followed by attacks on government buildings and police stations and law enforcement personnel before moving on to major attacks, including suicide bombings.
To distinguish Taleban-related activities from general lawlessness in the area, a series of rules were applied to each incident.
These were: such incidents had to be of a recurring nature; they should have occurred within the last 18 months; the incidents must be related to Taleban militancy and not with general lawlessness; there must be some level of official confirmation of Taleban presence in such areas; the Taleban must have claimed to have appointed local "commanders", and religious schools sympathetic to the Taleban must be in the area.
Once an assessment of the current situation had been made in all these districts, they were divided into three categories.
Taleban control: Districts and tribal areas where the civilian government has completely lost control. Such areas are either in Taleban control or the government has called in the army to flush the militants out. Local administration in these areas has become effectively dysfunctional and Taleban commanders are known to be in administrative control.
Taleban presence: These areas comprise districts and tribal agencies where the Taleban has established a permanent presence. In most cases, Taleban fighters have set up bases in rural areas, restricting government officials to limited areas in or around the district or tribal headquarters. In most of these areas, the Taleban has made its presence felt by periodically carrying out attacks on music shops, girls schools, government buildings, including police stations, and suicide bomb attacks. Local government administration remains in these areas but its effectiveness is seriously compromised. In many of these areas, the Taleban is known to have administered justice by enforcing settlements of disputes between locals. In all such areas, the Taleban have repeatedly demonstrated their capability to strike at will.
Government control: All areas where the government remains mostly in control. However, these areas are not unaffected by militant activities, such as kidnapping for ransom which are not directly related to Taleban militancy.
Source: http://news.bbc.co.uk/1/hi/world/south_asia/8046577.stm
حکومتی کنٹرول ایک تہائی تک محدود
پاکستانی طالبان شمال مغربی صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کے چوبیس فیصد حصے پر مکمل طور پر قابض ہو چکے ہیں جبکہ ان کے جنگجو یا حامی مزید اڑتیس فیصد علاقے میں متحرک نظر آتے ہیں۔پچھلے چند ہفتوں کی مسلسل فوجی کارروائی کے باوجود پاکستان کی حکومت اور فوج ان علاقوں سے طالبان کا قبضہ مکمل طور پرختم کرانے میں تاحال ناکام رہی ہے۔ نتیجتاً صوبائی حکومت کی عملی رٹ شمال مغربی صوبہ سرحد کے اڑتیس فیصد علاقے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
نقشے کی مدد سے دیکھیے کہ کہاں طالبان قابض ہیں، کن علاقوں میں ان کا اثر بڑھ رہا ہے اور کہاں حکومتی عملداری ابھی قائم ہے
طالبان کے زیر کنٹرول ان علاقوں میں شمالی پاکستان کی بائیس فیصد آبادی بستی ہے۔ اس حساب سے طالبان صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں کے پینسٹھ لاکھ عوام پر حکومت کر رہے ہیں جبکہ مزید پچاس فیصد آبادی یا لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ عوام اس خوف میں رہ رہے ہیں کہ ان کا علاقہ کسی بھی وقت طالبان کی عملداری میں آ سکتا ہے۔ یوں حکومتی کنٹرول شمالی پاکستان کی صرف اٹھائیس فیصد آبادی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
بی بی سی کی ریسرچ درست نہیں: صدر آصف زرداری
صوبہ سرحد میں طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں سوات، بنیر، شانگلہ اور لوئر دیر شامل ہیں جب کہ قبائلی علاقوں میں اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور باجوڑ اس وقت مکمل طور پر طالبان یا ان کے حلیف جنگجوؤں کے قبضے میں ہیں۔ ان تمام علاقوں میں حکومتی عملداری تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، اورکزئی ایجنسی اور باجوڑ تو سوات میں طالبان کی عملداری قائم ہونے سے پہلے ہی طالبان یا ان کے حامی جنگجوؤں کے نرغے میں آ چکے تھے
قبائلی علاقے
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سے جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، اورکزئی ایجنسی اور باجوڑ تو سوات میں طالبان کی عملداری قائم ہونے سے پہلے ہی طالبان یا ان کے حامی جنگجوؤں کے نرغے میں آ چکے تھے لیکن سوات میں طے پانے والے امن معاہدے کے چند ہی ماہ کے اندر طالبان صوبہ سرحد کے بندوبستی اضلاع شانگلہ، بونیر اور لوئر دیر پر بھی قابض ہو گئے۔
اس کے علاوہ انہوں نے کسی نہ کسی حد تک اپر دیر، صوابی، مردان، پشاور، مالاکنڈ، ہنگو، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی مستقل موجودگی قائم کر لی ہیں۔
بی بی سی اردو سروس کے نامہ نگاروں کی رپورٹوں کی مدد سے تیار کردہ صوبہ سرحد کے نقشے کے مطابق مکمل حکومتی رٹ اب صوبہ سرحد کے شمالی ضلع چترال، شمال مشرقی اضلاع کوہستان، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، وسطی اضلاع چارسدہ اور نوشہرہ اور جنوبی ضلع کرک تک محدود ہو چکی ہے۔
ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق قبائلی علاقوں میں مہمند، خیبر اور کرم ایسی ایجنسیاں ہیں جہاں طالبان یا ان سے منسلک جنگجوؤں کی ناصرف باقاعدہ موجودگی ہے بلکہ وہ ان ایجنسیوں کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں طالبان کنٹرول کی سب سے بڑی مثال خیبر ایجنسی میں ملتی ہے جہاں نیٹو کو رسد پہنچانے والے قافلوں پر باقاعدہ حملے ہوتے ہیں۔ ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق خیبر کے دو علاقوں باڑہ اور جمرود پر شدت پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔
تاہم ان تینوں ایجنسیوں میں حکومت مقامی لشکروں کے ذریعے کم از کم ایجنسی ہیڈکوارٹرز تک اپنی عملداری قائم رکھے ہوئے ہے اسی لیے انہیں ابھی ایسے علاقوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا جہاں طالبان یا ان کے حلیف جنگجو مکمل طور پر قابض ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان تینوں ایجنسیوں میں بندوبستی علاقوں کے عوام کے لیے آزادانہ رسائی اور میڈیا کے لیے آزادانہ رپورٹنگ تقریباً ناممکن ہے۔
ان تین ایجنسیوں کے برعکس باجوڑ، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہیں۔ پاکستانی فوج جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے سے تقریباً نکل چکی ہے جبکہ باقی علاقے پر وزیر قبائل کے طالبان کا قبضہ ہے۔ ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بڑی تعداد میں غیر ملکی جنگجو موجود ہیں۔
اورکزئی ایجنسی میں مقامی طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود وزیرستان میں خود کش حملہ آور تیار کرنے والے طالبان جنگجو قاری حسین کا رشتہ دار ہے۔ یہاں مقامی شیعہ اور سنی آبادی میں کشیدگی رہتی ہے جس کی وجہ سے لوئر اورکزئی میں طالبان چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی سنی آبادی کی مدد کرتے ہیں۔ اس فرقہ وارانہ کشمکش نے علاقے میں حکومتی مشینری کو بالکل بے بس کر دیا ہے۔
باجوڑ میں اکتوبر دو ہزار چھ میں ایک بڑے میزائل حملے میں اسی افراد کی ہلاکت کے صرف نو دن بعد درگئی کے فوجی تربیتی کیمپ پر حملہ کر کے طالبان نے پہلی مرتبہ پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں بڑی کارروائی کرنے کی اہلیت کا ثبوت دیا تھا۔ درگئی فوجی کیمپ پر حملے میں چالیس سے زیادہ زیر تربیت جوان ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد حکومت اور فوج نے متعدد بار مقامی جرگوں کے ذریعے باجوڑ ایجنسی کو واپس قابو میں لانے کی کوشش کی لیکن پے در پے ناکامیوں کے بعد مقامی طالبان نواز عسکریت پسندوں سے معاہدہ کر کے علاقہ چھوڑ دیا۔
باجوڑ ایجنسی پر طالبان کا جزوی راج ہے گو کچھ عرصے سے طالبان اور فوج براہ راست متصادم نہیں۔ اتمانخیل قبیلے کی مزاحمت کی وجہ سے انہیں اس علاقے میں احمایت نہیں مل سکی ہے
ہمارے نامہ نگار
اب ہمارے نامہ نگاروں کے مطابق باجوڑ ایجنسی پر طالبان کا جزوی راج ہے گو کچھ عرصے سے طالبان اور فوج براہ راست متصادم نہیں۔ باجوڑ میں اتمانخیل قبیلے نے آغاز سے طالبان کی مزاحمت کی ہے لہذا اس علاقے میں ان کو حمایت نہیں مل سکی ہے۔ اس کے باوجود باجوڑ طالبان کا ایک مضبوط گڑھ ہے جہاں فوج کا عمل دخل ہونے کے باوجود طالبان اپنی کارروائیاں کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
بندوبستی علاقوں سوات، شانگلہ، بونیر اور لوئر دیر کے اضلاع پر طاءبان پچھلے چند ہفتوں میں مکمل طور پر قابض ہو گئے تھے۔ ان اضلاع میں سے گزرنے والے تمام اہم راستوں پر انہوں نے اپنا کنٹرول قائم کر لیا تھا۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ سوات کے بعد طالبان کو ان اضلاع میں اپنی عملداری قائم کرنے میں مالاکنڈ کے کمشنر سید محمد جاوید سے باقاعدہ مدد ملی جس کی وجہ سے انہیں اس عہدے سے ہٹا لیا گیا۔
تاہم پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے امریکی دورے کے ساتھ ہی شروع ہونے والے فوجی آپریشن نے طالبان کے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ فی الحال ان علاقوں پر حکومتی رٹ مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی لیکن اگر موجودہ آپریشن کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں تو آنے والے ہفتوں میں یہ علاقے واپس حکومتی کنٹرول میں آسکتے ہیں۔
ان چاروں اضلاع کا کل رقبہ دس ہزار تین سو اکہتر مربع کلومیٹر بنتا ہے جبکہ یہاں کی کل آبادی لگ بھگ چوالیس لاکھ ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان اضلاع کی جغرافیائی حدود ہیں۔ لوئر دیر سوات اور قبائلی علاقوں میں پل کا کام کرتا ہے اور اس علاقے میں طالبان کی عملداری قائم ہونے سے سوات اور قبائلی علاقوں کی باجوڑ ایجنسی میں طالبان کی آمدو رفت کے لیے ایک باقاعدہ راستہ بن گیا ہے۔
اس کے علاوہ لوئر دیر پر طالبان کے قبضے کے بعد ضلع چترال کا زمینی رابطہ مکمل طور پر کٹ گیا ہے۔ سال میں سردیوں کے چھ یا سات ماہ تک تو ویسے ہی چترال کا زمینی رابطہ باقی پاکستان سے کٹا رہتا ہے۔ اب اگر حکومت لوئر دیر پر اپنی رٹ بحال نہ کر سکی تو چترال کا زمینی رابطہ ملک کے باقی حصوں سے مستقل کٹ سکتا ہے۔
بونیر پر طالبان کے قبضے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اگر مستقبل قریب میں طالبان ضلع صوابی میں اپنے قدم جما لیتے ہیں تو انہیں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ شمال سے پنجاب میں داخل ہونے کا ایک اور اہم راستہ مل جائے گا۔
پچھلے چند ہفتوں میں طالبان کے قبضے میں آنے والے ان چاروں اضلاع کے علاوہ صوبہ سرحد کے کل چوبیس میں سے گیارہ اضلاع ایسے ہیں جہاں یا تو طالبان نے مستقل موجودگی ثابت کر دی ہے یا ان کے مقامی رابطے اس سطح پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ کسی وقت بھی ان اضلاع میں کوئی بڑی کارروائی کر سکتے ہیں۔
چھبیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ان گیارہ اضلاع میں پشاور، مردان، صوابی، کوہاٹ، ہنگو، بنوں، اپر دیر، مالاکنڈ، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک شامل ہیں۔ ان اضلاع کی سوا کروڑ آبادی گزشتہ کچھ عرصے سے طالبان کے خوف میں جی رہی ہے۔ ان تمام اضلاع میں طالبان یا ان کے حامی جنگجو موسیقی کی دکانوں پر حملے اور گاڑیوں سے زبردستی کیسٹ پلیئر اتارنے سے لے کر خود کش حملوں تک متعدد کارروائیاں کر چکے ہیں۔
ان اضلاع کا جغرافیہ یہاں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو حکومت اور فوج کے لیے مزید خطرناک بناتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے صوبہ سرحد میں مکمل حکومتی رٹ چار مختلف ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ پہلا ٹکڑا وسیع و عریض شمالی ضلع چترال پر مشتمل ہے۔ چترال میں فی الحال طالبان کے ٹھکانوں کی کوئی خبر نہیں لیکن رقبے کے اعتبار سے طالبان کے زیر انتظام چاروں اضلاع کے مجموعی رقبے سے ڈیڑھ گنا بڑے چترال کا پہاڑی علاقہ مستقبل میں طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کے لیے دلچسپی کا علاقہ بن سکتا ہے تاہم مقامی آبادی کا پشتون نہ ہونا ان کے لیے منفی عنصر ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر طالبان صوابی کے ذریعے ایبٹ آباد اور ہری پور تک پھیل جاتے ہیں تو سرحد کی مشرقی پٹی کے اضلاع کا رابطہ باقی صوبے سے مکمل طور پر کٹ جائے گا
سرحد کے مشرقی اضلاع
دوسرا ٹکڑا صوبے کے مشرقی اضلاع کوہستان، بٹگرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور ہری پور پر مشتمل ہے۔ حکومتی کنٹرول کی اس پٹی سے ملحقہ اضلاع سوات، شانگلہ اور بونیر طالبان کے نرغے میں ہیں اور اگر طالبان صوابی کے ذریعے ایبٹ آباد اور ہری پور تک پھیل جاتے ہیں تو اس مشرقی پٹی کا رابطہ باقی صوبے سے مکمل طور پر کٹ جائے گا۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہو گا کہ صوابی طالبانیت سے گہری رغبت رکھنے والے عوام کا علاقہ ہے۔ یہاں قائم پنج پیر کے مشہور مدرسے سے مولانہ صوفی محمد اور ملا فضل اللہ سمیت کئی اہم رہنما تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ پنج پیر کو تقریباً ایک فقہ کا درجہ حاصل ہے جو طالبان کے وہابی فقہ سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔ گو ابھی تک یہاں طالبان طرز کی معمولی کارروائیاں ہوئی ہیں لیکن مقامی لوگ اس علاقے کو طالبانیت کا نظریاتی گڑھ بیان کرتے ہیں۔ اسلام آباد پشاور موٹروے بننے کے بعد صوابی کا اسلام آباد تک سفر بہت حد تک آسان ہو گیا ہے۔
صوبہ سرحد کا دارالحکومت پشاور، مغرب میں مہمند، خیبر اور اورکزئی ایجنسیوں میں گھرا ہوا ہے جبکہ اس کے شمال میں مردان اور چارسدہ، جنوب میں کوہاٹ اور مشرق میں مردان اور نوشہرہ کے اضلاع ہیں۔ یہاں پچھلے چند ماہ میں طالبان دیدہ دلیری سے کئی وارداتیں کر چکے ہیں جن میں سب سے معنی خیز نیٹو کو رسد پہنچانے والے ٹرکوں کے اڈوں پر حملے تھے جن میں درجنوں کی تعداد میں طالبان نے پے در پے حملے کر کے سینکڑوں ٹرکوں کو نظر آتش کر دیا تھا۔
پشاور میں ڈاکٹروں تک کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ کوئی مرد ڈاکٹر کسی عورت کا علاج نہ کرے اور پینٹ شرٹ پہن کر نہ آئے
تازہ اطلاعات
مردان میں موسیقی کی دکانوں پر حملے معمول کی کارروائی بن چکے ہیں جبکہ چارسدہ میں سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ پر قاتلانہ حملے سمیت کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پشاور میں ڈاکٹروں تک کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ کوئی مرد ڈاکٹر کسی عورت کا علاج نہ کرے اور پینٹ شرٹ پہن کر نہ آئے۔ طالبان کے پھیلاؤ سے متعلق اب تک ماضی کا تجربہ یہی رہا ہے کہ وہ جس علاقے کو بھی نشانہ بناتے ہیں وہاں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے اسی طرح کے حربوں سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کرتے ہیں۔
جنوبی اضلاع بنوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی ایک عرصے سے طالبان کی پر تشدد کاروائیوں کا شکار ہیں۔ بنوں بندوبستی اضلاع میں وہ واحد ضلع ہے جہاں امریکی ڈرون باقاعدہ حملہ کر چکے ہیں۔ اسی طرح ٹانک میں بھی طالبان مسلح گشت کر چکے ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت یہاں بڑی تعداد میں جنوبی وزیرستان کے پناہ گزین آباد ہونے کی وجہ سے طالبان کو ان علاقوں میں آزادانہ رسائی حاصل ہے۔
ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کا شمار مستقبل قریب کے خطرناک ترین اضلاع میں کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں طالبان مقامی فرقہ پرست تنظیموں کی باقاعدہ حمایت کرتے ہیں۔ سال بھر کے عرصے میں یہاں فرقہ وارانہ وارداتوں اور خود کش حملوں کے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں پولیس سٹیشنوں اور دیگر حکومتی اہلکاروں پر حملے بھی شامل ہیں۔
ان اضلاع میں جاری پرتشدد فرقہ واریت میں طالبان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی نے پنجاب کے اضلاع کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر آنے والے وقتوں میں طالبان نے باقاعدہ طور سے پرتشدد فرقہ پرستی میں ملوث ہونے کی پالیسی اپنا لی تو جنوبی پنجاب کے نو بڑے اضلاع ان کے اثر و رسوخ کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
پنجاب کے ان اضلاع میں چکوال، میانوالی، بھکر، جھنگ، مظفرگڑھ، بہاولنگر، بہاولپور، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں۔ صوبہ پنجاب کے سینتالیس فیصد یا تقریباً نصف رقبے پر پھیلے ہوئے ان اضلاع میں سوا دو کروڑ لوگ بستے ہیں جو پنجاب کی بائیس فیصد آبادی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں ان تمام اضلاع سے کسی نہ کسی نوعیت کی 'طالبان طرز' کی کارروائی کی اطلاعات آ چکی ہیں۔
بااثر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب کی اہلیہ ام حسان پچھلے چند ماہ میں پنجاب کے جنوبی اضلاع کے بیس سے زیادہ دورے کر چکی ہے جن کے دوران انہوں نے کئی جلسوں سے بھی خطاب کیا ہے۔ مغربی مبصرین کی رائے میں ان علاقوں کے مدرسے میں نوجوانوں کی ایک ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جو طالبان سے انتہائی نظریاتی مطابقت رکھتی ہے اور جسے وقت آنے پر ریاست کے خلاف صف آراء ہونے میں تامل نہ ہو گا۔
پاکستانی مبصرین بارہا اس خطرے کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ حکومت وقتاً فوقتاً اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر صوبہ سرحد کے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر تو آمادہ ہو جاتی ہے لیکن طالبان کی اس نظریاتی پیش قدمی کو روکنے کی ضرورت سے قطعی بے بہرہ نظر آتی ہے۔
.....
طالبان کا مارچ
طالبان کے زیر کنٹرول اور زیر اثر ضلعوں کے بارے میں تفصیلات بی بی سی پاکستان کے ایکٹنگ ایڈیٹر ہارون رشید نے نامہ نگاروں عبدالحئی کاکڑ، رفعت اللہ اورکزئی، دلاور خان وزیر اور علی سلمان کی مدد سے جمع کی ہیں۔
پروڈیوسرز: راجہ ذوالفقار علی، عالیہ نازکی، عبدالوہاب رفیق
پاکستان میں طالبان کی پیش قدمی، خصوصی نقشے اور تفصیلات کے لیے لنکس پر کلک کریں۔
طالبان کے زیر کنٹرول
سوات
آبادی: 1,807,200
اپنی قدرتی دلکشی کی وجہ سے پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہلانے والا ضلع سوات جو کبھی غیر ملکیوں کے لیے پاکستان میں ایک پُرکشش مقام تھا اور یہاں موسمِ گرما میں پاکستانی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد و رفت سے سیاحت عروج پر ہوتی تھی آج مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
اپریل کے شروع میں سوات میں شرعی نظامِ عدل عملی طور پر نافذ کر دیا گیا تھا۔ سرحد حکومت نے اس قانون پر عملدرآمد کو طالبان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے سے مشروط کردیا تھا۔ امن معاہدے کے بعد مختلف رہنماؤں کی یقین دہانیوں کے باوجود طالبان غیر مسلح نہیں ہوئے بلکہ ان کی کارروائیوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سوات ہی وہ ضلع ہے جہاں سے تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمد کے سربراہ صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ طالبان کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
اس ضلع میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بوقتِ ضرورت یا دفاعی حکمتِ عملی کے تحت طالبان پسپائی اختیار کرتے ہوئے چھپ سکتے ہیں۔ حتٰی کہ اگر کسی وجہ سے ان پر سیاسی دباؤ بڑھ جائے تو وہ سیاسی مصلحت کی بنیاد پر سوات کے شمالی علاقوں میں رُوپوش ہو سکتے ہیں جہاں طالبان کا کنٹرول ہر لحاظ سے مکمل ہے۔
شانگلہ
آبادی: 640,000
شانگلہ سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (قاف) کے رہنما امیر مقام کا آبائی علاقہ ہے۔ اس ضلع کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ جزوی طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ یہاں پر زمرد کی کانیں ہیں۔ اس علاقے میں فوجی کارروائی ہو رہی ہے۔
تقریباً ڈیڑھ برس پہلے شدت پسندوں نے شانگلہ ٹاپ پر قبضہ کر لیا تھا اور تھانوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا تھا۔ وہاں کی پولیس شدت پسندوں کی آمد پر فرار ہوگئی تھی۔ کئی سرکاری عمارتوں پر بھی شدت پسندوں کا کنٹرول قائم ہو گیا تھا۔ طالبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ حسبِ ضرورت وہ اس علاقے میں اپنا کنٹرول قائم کر سکتے ہیں۔
بونیر
آبادی: 709,700
اسلام آباد سے تقریباً ایک سو میل کے فاصلے پر واقع بونیر وہ ضلع ہے جہاں فوج کی کارروائی جاری ہے اور فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں کے صدر مقام ڈگر کا کنٹرول اس کے پاس واپس آگیا ہے۔ یہاں سے شدت پسندوں کو مکمل طور پر باہر نکال دیا گیا ہے۔اگرچہ یہ ضلع سوات کے طالبان کے کنٹرول میں رہا ہے لیکن یہ واحد ضلع ہے جہاں کی مقامی آبادی طالبان کی حمایت نہیں کرتی۔
ضلع بونیر تمام پشتونوں میں صوفی بزرگ سید علی ترمزی المعروف پیربابا کے مزار کے حوالے سے مشہور تھا لیکن شدت پسندی کی لہر نے صورتِ حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ سنہ دو ہزار آٹھ میں سوات کے طالبان نے بونیر میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جس میں بونیر کے علاقے شلبانڈی کے مقام پر مقامی لوگوں کے ایک لشکر سے طالبان کا تصادم ہوا تھا جس میں چھ طالبان مارے گئے تھے۔اس واقعہ کے بعد طالبان واپس چلے گئے تھے۔ البتہ کچھ عرصے بعد جب شلبانڈی میں ضمنی انتخاب ہوا تو ایک خود کُش حملے میں اڑتالیس افراد ہلاک ہوگئے۔
تاہم سوات میں نظام عدل کے نفاذ کی کامیابی کے بعد طالبان نے دوبارہ بونیر کا رخ کیا تو مقامی افراد نے طویل مذاکرات کے بعد مزاحمت کا ارادہ ترک کرکے انہیں آنے کی اجازت دے دی۔ علاقے میں طالبان کے خوف کی وجہ سے موسیقی اور حجاموں کے کاروبار بھی بند ہوگئے تھے۔
لوئر دیر
آبادی: 1,073,000
لوئر دیر سےگزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران مسلسل اطلاعات آ رہی تھیں کہ وہاں طالبان نے اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے اٹھائیس اپریل دو ہزار نو کو ایک نیوز کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کی کہ شدت پسندوں نے پہاڑوں پر اپنے اڈے بنا لیے تھے۔ اس ضلع میں ’میدان‘ کا علاقہ طالبان کا اصل گڑھ ہے۔ تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے سربراہ صوفی محمد کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ پاکستان فوج نے اس ضلع پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کا بھی دعوی کیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ یہاں موجود شدت پسند اور طالبان اًپر دِیر میں اپنا اثر و رسُوخ بڑھانے کے لوئر دِیر کو باآسانی استعمال کر سکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوئر دِیر میں طالبان کا اثر و نفوذ بہت زیادہ ہے اور وہ جب چاہیں اپنی جنگی حکمتِ عملی کے مطابق اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
قبائلی علاقے
جنوبی وزیرستان
آبادی: 541,944
جنوبی وزیرستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی ایجنسی ہے۔ اس میں دو بڑے قبیلے، محسود اور وزیر قبائل، آباد ہیں۔ وزیر قبیلہ افغان سرحد کے آر پار آباد ہے۔ محسود صرف جنوبی وزیرستان میں آباد ہے۔ محسود اور وزیر دونوں کے علاقے میں حکومت کی عملداری ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت فوج صرف وانا میں زیڑی نور کیمپ تک محدود ہے۔ محسود کے علاقے کو فوج نے گزشتہ سال تین سو اہلکاروں کے اغواء کے بعد خالی کر دیا تھا، کیونکہ محسود کے علاقے میں رسد نہیں پہنچ سکتی۔ بیت اللہ محسود کے علاقے میں خودکش بمباروں کے سات ٹریننگ سینٹر ہیں جن میں مکین، شک توئی، کانیگرم، ڈیلا، کوٹ کائی، شوال اور بدر شامل ہیں۔ ملا نذیر کے دو سینٹر ہیں جن میں شکائی اور باغڑ کے علاقے شامل ہیں۔ ملا نذیر کے کچھ لوگ وانا کے قریب بلوچستان کے علاقے میں رہتے ہیں جن میں زیادہ تر غیر ملکی تاجک ہیں۔
شمالی وزیرستان
آبادی: 483,565
شمالی وزیرستان میں دو بڑے قبیلے وزیر اور داوڑ آباد ہیں جن میں پچھہتر فیصد وزیر ہیں۔ یہاں تین سب ڈویژن ہیں: میرانشاہ، میرعلی اور رزمک۔ ان تینوں میں طالبان کے ٹھکانے موجود ہیں۔ طالبان نے شہروں میں روزانہ گشت کرنے، لوگوں کے مسائل سننے اور سزا دینے کے لیے ہر علاقے میں دفتر قائم کر رکھے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں صرف ایک کمانڈر گل بہادر کا کنٹرول ہے البتہ بیت اللہ محسود کے تین کیمپس بھی موجود ہیں، جن میں دو میرانشاہ اور ایک رزمک میں قائم ہے۔ شمالی و جنوبی وزیرستان میں اس وقت پنجابی طالبان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
کرم
آبادی: 602,927
کُرم ایجنسی بھی تین سب ڈویژنوں پر مشتمل ہے، جن میں اپر کرم، سینٹرل کرم اور لوئر کرم شامل ہیں۔ اپر کرم میں زیادہ تر آبادی شیعوں کی ہے اس لیے اس علاقے میں طالبان بہت کم ہیں۔ لوئر کرم کی صرف ایک تحصیل علی زئی میں شیعہ آبادی ہے، باقی پورے کرم میں جہاں سنی آبادی ہے وہاں طالبان بھی موجود ہیں اور سنی آبادی طالبان کی حمایت بھی کرتی ہے۔ جب سے جنوبی و شمالی وزیرستان پر ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا ہے تب سے غیر ملکی عرب کرم اور اورکزئی کے علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
اورکزئی
آبادی: 162,526
اورکزئی میں دو سب ڈویژن ہیں۔ اپر اورکزئی اور لوئر اورکزئی۔ لوئر اورکزئی میں شیعوں کی آبادی زیادہ ہے اس لیے وہاں طالبان بہت کم ہیں۔ اپر میں سنی آباد ہیں اور پہاڑی علاقے بھی ہیں۔ یہاں طالبان زیادہ ہیں۔ زیادہ تر طالبان ماموزئی، علی خیل، آخیل اور فیروز خیل قبائل میں ہیں۔ یہ لوگ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ اورکزئی، کرم اور خیبر ایجنسی کے لیے طالبان کے کمانڈر بھی حکیم اللہ محسود ہیں۔ حکیم اللہ محسود قاری حسین کے چچازاد بھائی ہیں۔ قاری حسین کو وزیرستان میں خودکش بمباروں کا ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا ہے۔
خیبر
آبادی: 867,286
خیبر قبائلی علاقوں میں واحد قبائلی علاقہ ہے جہاں مذہبی تنظمیں زیادہ ہیں۔ خیبر میں تین مذہبی تنظیمیں ہیں جن میں لشکر اسلام، جس کا امیر منگل باغ ہے، انصاراسلام، جس کا امیر قاضی محبوب الحق ہے اور امر باالمعروف جس کا امیر نیازگل ہے، شامل ہیں۔ خیبر ایجنسی میں پہلے سے طالبان نہیں تھے مگر چونکہ نیٹو کے لیے رسد لے جانے والے قافلے خیبر سے گزرتے ہیں اس لیے قافلوں پر حملوں کے لیے طالبان یہاں بھی پہنچ گئے ہیں۔ خیبر ایجنسی کے تین ڈویژنوں میں دو پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے، جن میں جمرود اور باڑہ شامل ہیں۔
مہمند
آبادی: 553,028
مہمند میں بھی طالبان تین سب ڈویژنوں میں موجود ہیں۔ مہمند کے ایک بڑے قبیلے صافی سے تعلق رکھنے والے عمر خالد طالبان کا کمانڈر ہے۔ مہمند میں غیر ملکی ازبک اور عرب بھی موجود ہیں۔
باجوڑ
آبادی: 989,904
باجوڑ میں پہلے سے طالبان کا کنٹرول ہے۔ مولانا فقیر محمد اور تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کا تعلق بھی باجوڑ سے ہے۔ باجوڑ کے علاقے سلارزئی، دشت کے علاقے میں طالبان کے کئی ٹھکانے موجود ہیں۔ ایف آر کے تمام علاقوں میں طالبان موجود ہیں۔ لیکن زیادہ مضبوط گڑھ ایف آر کے علاقوں میں درہ آدم خیل ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان سے ملحقہ ایف آر شیرنی کی سرحدیں پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے لگی ہوئی ہے۔ جنوبی وزیرستان سے بغیر کسی رکاوٹ کے پنجاب میں طالبان داخل ہو سکتے ہیں۔
طالبان متحرک
اپر دیر
آبادی: 799,000
اپر دیراس علاقے میں کسی حدت تک شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ تاہم یہاں موجود شدت پسند کھلے عام یہ اقرار نہیں کرتے کہ ان کا طالبان سے کسی قسم کا کوئی تعلق یا رابطہ ہے۔ یہاں کے شدت پسند خود کو طالبان بھی نہیں کہتے لیکن کہا جاتا ہے کہ یہاں موجود شدت پسند مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اس سال فروری سے یہاں افغان باشندوں کی قیادت میں ایک گروپ نے ڈوگ درہ کے علاقے پر قبضہ کیا اور مقامی جرگوں کے باوجود اس خالی کرنے سے انکار کرتے رہے۔ اپریل دو ہزار نو میں یہاں پانچ پولیس اہلکار شرینگل کے علاقے میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
اس ضلع کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر طالبان کو ضرورت پڑے تو انہیں یہاں سے مدد مل سکتی ہے۔ اس ضلع میں تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے دفاتر بھی ہیں اور اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد بھی یہاں موجود ہیں۔
مالاکنڈ
آبادی: 672,000
مالاکنڈ ضلع مردان اور سوات کے اضلاع کے درمیان ایک پہاڑی درہ ہے۔ یہیں انیسویں صدی کے اواخر میں مقامی قبائل نے برطانوی فوجیوں کے خلاف لڑائیاں لڑیں۔ سوات میں شدت پسندی کے مسئلے کے سر اٹھانے سے پہلے سے ہی یہاں امن و عامہ کی مشکل انتظامیہ کو درپیش تھی۔ اغواء برائے تاوان کے لیئے یہ علاقہ بدنام تھا۔ ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم کے چند اہلکار بھی یہاں سے اس سال جنوری میں اغوا ہوئے تھے۔ لیکن سب سے بڑا حملہ یہاں باجوڑ ایجنسی میں ڈمہ ڈولہ کے مقام پر امریکہ میزائل حملے کے فورا بعد ردعمل میں شدت پسندوں کی جانب سے درگئی کے مقام پر فوجی رنگروٹس پر تربیت کے دوران حملہ تھا جس سے چالیس سے زائد فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔ اس علاقے میں طالبان کی جزوی موجودگی ہے۔ لیکن اثر و رسوخ کافی ہے جس کے باعث طالبان جب چاہیں علاقے کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے سکتے ہیں۔
مردان
آبادی: 2,084,000
صوبہ سرحد کے اس شہر میں مبینہ شدت پسندوں کے منظر عام پر آنے اور پولیس اہلکاروں سے باقاعدہ جھڑپوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہاں شدت پسندوں کا مستقل کنٹرول نہیں ہے لیکن وہ امن و عامہ کی صورتحال پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سے سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ضلع مردان کو آبادی اور کاروباری لحاظ سے ایک اہم شہر سمجھا جاتا ہے جس کی سرحد شورش زدہ علاقوں سوات، بونیر، پشاور اور صوابی سے ملتی ہے۔ مردان میں سی ڈیز فروخت کرنے والی دکانوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ پچھلے دنوں ضلع مردان میں ایک غیر سرکاری تنظیم اور کیبل آپریٹر کے دفاتر پر ہونے والے بم حملے کی ذمہ داری خود کو کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا امیر ظاہر کرنے والے ایک شخص حبیب الرحمان نے قبول کی تھی۔ اسی شہر سے القاعدہ کا ایک اہم رکن الفراج اللبی مئی دو ہزار پانچ میں گرفتار ہوا تھا۔
صوابی
آبادی: 1,457,000
صوابی اے این پی کا گڑھ ہے اور یہاں پر طالبان کی موجودگی کم ہے۔ یہاں حالات معمول کے مطابق ہیں البتہ دیواروں پر طالبان کی حمایت میں چاکنگ دیکھنے میں آتی ہے۔ صوابی کی ایک اور وجہِ خصوصیت آئی ایس آئی کے ایک سابق اہلکار میجر عامر کا آبائی گاؤں ہونا بھی ہے۔میجر عامر سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے اخبارات کی زینت رہے ہیں اور بریگیڈئر ریٹائرڈ امتیاز سے جو انٹیلی جینس بیورو کے سربراہ بھی رہے، میجر عامر کا ان کے ساتھ سیاسی تعلق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ میجر عامر مبینہ طور پر سرحد میں پیش آنے والی شدت پسند کی کارروائیوں کو نظریاتی جواز فراہم کرتے ہیں۔ ان کے والد ایک پنج پیری تھے جو کہ وہابی مسلک کی مقامی قسم ہے۔ مولانا صوفی محمد، فقیر، منگل باغ، مفتی منیر شاکر اور فضل اللہ نے بھی پنج پیر سے تعلیم حاصل کی ہے۔
پشاور
آبادی: 3,079,000
’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پشاور ایک فرنٹ لائن شہر بن چکا ہے۔ دھماکے، خود کش حملے، اور اغوا تقریباً معمول بن چکے ہیں۔ پشاور کو تین اطراف سے شدت پسندوں کی پیش قدمی کا سامنا ہے۔ شمال میں مردان اور چارسدہ، مغرب میں مہمند اور خیبر کی قبائلی ایجنسیاں اور جنوب میں درہ آدم خیل میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔
صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں اتحادی افواج کو سامان رسد لے جانے والے گاڑیوں کے اڈوں پر گزشتہ چند ماہ سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں اب تک ایک اندازے کے مطابق چار سو کے قریب گاڑیوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ ان میں چند حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی تھی۔ تحریک کے ترجمان مولوی عمر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب تک قبائلی علاقوں میں امریکی جاسوس طیاروں کے حملے بند نہیں ہوتے وہ نیٹو کی سپلائی لائن کاٹتے رہیں گے۔
کوہاٹ
آبادی:826,000
ضلع کوہاٹ نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کوہاٹ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ہوچکے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز کے علاوہ عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ضلع کوہاٹ میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی میں پینتیس شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا تھا۔ یہاں بھی شدت پسندوں نے اپنی موجودگی کا احساس پہلے پہل ویڈیو سینٹروں اور کیبل آپریٹروں کے دفاتر پر حملوں سے دلایا۔
ہنگو
آبادی: 461,000
ضلع ہنگو قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی کی سرحد پر واقع ہے جس پر مقامی لوگوں کے مطابق طالبان سربراہ بیت اللہ محسود کے دستِ راست حکیم اللہ محسود کا قبضہ ہے۔ ضلع ہنگو کے ان علاقوں میں طالبان بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اورکزئی ایجنسی کے ساتھ جڑتے ہیں۔ بعض مبصرین کے بقول ہنگو اس وجہ سے بھی طالبان کے لیے اہم ہے کیونکہ اس ضلع کی سرحدیں کرم ایجنسی اور وزیرستان سے بھی ملتی ہیں جہاں عسکریت پسند پہلے ہی سرگرم عمل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ طالبان ضلع ہنگو کے دروازے تک تو پہنچ گئے ہیں اور اگر حکومت کی طرف سے مستقل بنیادوں پر اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو سارا ضلع آسانی سے ان کے کنٹرول میں آسکتا ہے۔ یہاں دو ہزار چھ میں محرم کے جلوسوں پر خودکش حملہ بھی ہوچکا ہے جس کے بعد سے یہاں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
بنوں
آبادی: 944,000
بنوں شمالی وزیرستان سے متصل ایک بندوبستی ضلع ہے۔ بنوں میں قانون نافد کرنے والوں پر بڑی تعداد میں حملے ہوچکے ہیں جس میں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ شدت پسندوں کے مسلسل دباؤ کی وجہ سے بنوں میں حکومت کی عملداری کمزور ہوئی ہے۔ تاہم یہاں قبائلی نظام کافی مضبوط ہے جس کی وجہ سے مقامی طالبان کو زیادہ کامیابی نہیں مل رہی۔ بنوں متحدہ مجلس عمل کے سابق وزیر اعلی اکرم خان درّانی کا آبائی شہر ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ انتخابات میں نشست یہیں سے جیتی تھی۔
ٹانک
آبادی: 272,000
ٹانک پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا گیٹ وے ضلع ہے۔ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کئی حملے ہوچکے ہیں۔ صوبہ سرحد کے جنوبی اضلاع قبائلی علاقوں کے حالات سے انتہائی متاثر ہیں لیکن ٹانک ان اضلاع میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے۔ یہاں مارچ دو ہزار سات میں سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسندوں نے شہر پر حملہ کر کے بڑے پیمانے پر لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہ حملہ ان کے ایک ساتھی کی جوکہ شہر کے سکولوں میں طلبہ کو جہاد کی تلقین کر رہے تھے ہلاکت کے بعد انتقام کے طور پر کیا گیا تھا۔
لکی مروت
آبادی: 712,000
لکی مروت شمالی جنوبی وزیرستان کے نواح میں واقع ایک ضلع ہے جہاں پہلے بھی قانون نافد کرنے والوں اور دیگر اداروں پر حملے ہوئے ہیں۔ لکی مروت میں مقامی قبائل بہت طاقتور ہیں۔ یہاں شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان یہاں جھڑپوں کا ایک مسلسل سلسلہ چل رہا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان)
آبادی: 1,254,000
دلکش پھولوں اور لذیذ حلووں کی وجہ سے مشہور ڈیرہ اسماعیل خان بھی قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
صوبے کے انتہائی جنوب میں یہ شہر انڈس ہائی وے پر پشاور سے تقریباً تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی مشرقی جانب اگر صوبہ پنجاب ہے تو مغربی سمت میں خطرناک قرار دیا جانے والا وزیرستان واقع ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان جو کبھی امن کا گہوارا تھا اب پر تشدد کارروائیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں ظاہری طور پر دو گروہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ ان میں ایک تو فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث ہے تو دوسرا وہ گروہ ہے جو سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ایسے کئی حملوں کی ذمہ داری وزیرستان میں سرگرم طالبان قبول کر چکے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان وزیرستان کے قبائلیوں میں سے بڑی تعداد کے لیے موسم سرما میں دوسرے گھر کا درجہ رکھتا ہے لیکن سال دو ہزار آٹھ میں جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں میں شدت آنے سے بڑی تعداد میں قبائلی نقل مکانی کرکے ڈیرہ اسماعیل خان اور اردگرد کے علاقوں میں آباد ہوگئے۔ بعض حکام کے مطابق اس غیرمقامی آبادی میں شدت پسند بھی شامل تھے۔
پولیس کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں سن دو ہزار آٹھ میں تشدد کے کل سینتالیس مقدمات درج ہو ئے۔ ان واقعات میں قانون نافذ کرنے والے نو اہلکاروں سمیت چوراسی افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے علاوہ فرقہ ورانہ ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔
جولائی دو ہزار سات میں ڈیرہ اسماعیل خان کی پولیس لائن میں اس وقت خود کش دھماکہ کیا گیا تھا جب پولیس میں بھرتی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کے بعد ڈیرہ شہر کی بنوں روڈ پر دو ایسے دھماکے ہوئے جن کا بظاہر قانون نافذ کرنے والے اہلکار نشانہ تھے۔ بھیانک ترین واقعات میں اگست دو ہزار آٹھ میں ڈیرہ اسماعیل خان کے سول ہسپتال میں کیا جانے والا خود کش حملہ سرفہرست تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے والے شیعہ مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک زخمی شخص کو ایمرجنسی وارڈ لایا گیا تھا۔ اس واقعہ میں لگ بھگ بتیس افراد ہلاک اور پچپن زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔
ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں عمومی طور پر عوام میں خوف پایا جاتا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے اپنی حفاظت کے اقدامات بڑھا دیے ہیں۔ یہ شاید اس زیادہ آگاہی اور احتیاط کا نتیجہ ہے کہ دسمبر دو ہزار آٹھ میں ایک مبینہ خود کش حملہ آور شکیل کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ اہل تشیع کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے وقت موجود تھا۔
وزیرستان میں شدت پسندوں پر ہوئے حملوں کا بدلہ بھی وہ ڈیرہ میں اکثر لیتے رہتے ہیں۔ دسمبر میں ڈیرہ شہر میں پہلی مرتبہ راکٹ باری کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ آٹھ منٹ میں آٹھ راکٹ شہر کے مختلف مقامات پر داغے گئے تاہم ان سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ راکٹ حملوں کی ذمہ داری جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان کے امیر ملا نذیر نے قبول کی تھی۔
ڈیرہ اسماعیل خان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ فرقہ ورانہ اور شدت پسندی کے ذریعے اسے دو مختلف سمتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں قیام امن اور فرقہ ورانہ تنظیموں پر قابو کے بغیر اس شہر میں امن و آشتی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔
خطرے میں
ڈیرہ غازی خان (ڈی جی خان)
آبادی: 2,429,000
پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کی سرحد صوبہ سرحد کے ساتھ ملتی ہے۔ اس علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پائی جاتی ہے۔ رواں سال فروری کے مہینے میں ڈیرہ غازی خان میں اہل تشیع کے ماتمی جلوس پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ واقعہ کے بعد شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ تحریک طالبان درہ آدم خیل نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی یہ دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر حکومت نے درہ آدم خیل میں فوجی کارروائی ختم نہیں کی اور ان کے ساٹھ گرفتار شدہ ساتھیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو آئندہ وہ صوبہ پنجاب میں اپنی کارروائیاں کریں گے۔
راجن پور
آبادی: 1,624,000
راجن پور پنجاب کا سرحدی ضلع ہے۔ لال مسجد کے غازی عبدالرشید اور مولانا عبدالعزیز کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔ لال مسجد فائرنگ میں ہلاک ہونے والے غازی عبدالرشید کی قبر اسی ضلع میں بنائی گئی ہے جہاں متعدد مدرسے بھی ہیں۔
بہاولپور
آبادی: 3,501,000
متعدد دینی مدرسوں اور چند ایک شدت پسند تنظیموں کا مرکز بہاولپور ہے۔ کالعدم تنظیم جیش محمد کا ہیڈکوارٹر اسی شہر میں ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو طیارہ ہائی جیک کیس میں مسافروں کی رہائی کے عوض انڈین جیل سے رہا کرایا گیا تھا جس کے بعد یہ کھلے عام پاکستان میں موجود رہے۔ کچھ عرصے پہلے چند پاکستانی حکام نے ان کی نظر بندی کا اعلان کیا لیکن بعد میں کہا گیا کہ وہ مفرور ہیں۔ برطانیہ طیارہ سازش کیس کا مفرور مرکزی ملزم راشد رؤف کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ پاکستان پولیس کو سب سے زیادہ مطلوب مطیع الرحمان کا تعلق بہاولپور کے نواحی قصبے یزمان سے بتایا جاتا ہے۔ بہالپور میں فرقہ وارانہ تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں۔
بہاولنگر
آبادی: 2,743,000
بہاولنگر میں فروری سنہ دوہزار آٹھ کے عام انتخابات کے دوران دو مبینہ خود کش حملہ آور سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق کی قیام گاہ کے نزدیک دھماکہ میں ہلاک ہوگئے۔سکیورٹی فورسز کا خیال تھا کہ وہ یا تو اعجاز الحق یا پھر بے نظیر بھٹو کے غائبانہ نماز جنازہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن قبل از وقت بارود پھٹ گیا۔ بہاولنگر میں دیوبندی سنیوں اور اہل تشیع کے اہم مدرسے ہیں جہاں دنیا بھر سے مسلمان مذہبی علوم کے حصول کے لیے آتے ہیں۔کالعدم لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد کے کے متعدد مطلوب کارکنوں کا تعلق اسی شہر سے ہے۔شیعہ تنظیم کے سید اسد شاہ اب بھی مطلوب ہیں اور ان کی زندہ مردہ گرفتاری پر بیس لاکھ روپے انعام ہے۔کالعدم لشکر جھنگوی کے گرفتار غلام رسول شاہ،رانا اکرم اور رفاقت اسی ضلع کے رہائشی ہیں۔
مظفر گڑھ
آبادی: 3,928,000
مظفرگڑھ میں یوں تو فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن گزشتہ برس مظفرگڑھ، نواحی علاقوں کوٹ ادولیہ وغیرہ میں چند دکانوں پر ایسے پمفلٹ تقسیم کیے گئے جو بظاہر تحریک طالبان پنجاب کی جانب سے تحریر کردہ تھے۔ ان خطوط نما پمفلٹ میں خواتین کو بے پردہ نکلنے اور سی ڈی کیبل کے کاروبار بند کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور حکم عدولی کی صورت میں بم دھماکوں سمیت دیگر سنگین اقدامات کی دھمکی دی گئی تھی۔ ان دھکمیوں پر فی الحال عمل تو نہیں ہوا لیکن ان کا خوف اب بھی علاقے میں پایا جاتا ہے۔
جھنگ
آبادی: 3,664,000
جھنگ کو پاکستان بلکہ برصغیر میں شیعہ سنی فساد کا مرکز قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اسی کی دہائی میں مولانا حق نواز جھنگوی نے دیوبندی سنی مسلمانوں کی انتہا پسند تنظیم انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی جھنگ میں فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے ان گنت واقعات ہوئے جس میں سینکڑوں شیعہ سنی اور عام غیر جانبدار افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی کی وصیت کے مطابق اس تنظیم کا جو بھی سربراہ منتخب یا مقرر ہوتا ہے وہ جھنگ میں سکونت اختیار کرتا ہے۔ جھنگ میں آج بھی انتخابات ہوں تو ووٹوں کی تقسیم شیعہ سنی کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے۔ لشکر جھنگوی اسی سپاہ صحابہ سے الگ ہونے والے عسکریت پسند کارکنوں کی کالعدم تنظیم ہے اور اس تنظیم کا نام پاکستان میں ہونے والے بڑے پرتشدد واقعات میں آتا ہے۔ پاکستانی پولیس کو مطلوب سب سے زیادہ افراد کا تعلق اسی تنظیم سے ہے۔
بھکر
آبادی: 1,450,000
پنجاب کے شہر بھکر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں بھکر میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے قومی اسمبلی کے رکن رشید اکبر نورانی کے ڈیرے پر خودکش حملے میں کم از کم بیس افراد ہلاک اور رشید نوانی سمیت پچاس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے اس حملے سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔ کئی پاکستانی اخبارات نے بھکر حملے کے تانے بانے فرقہ وارانہ تشدد سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ دی نیوز اخبار نے ایک رپورٹ میں تحقیق کاروں کے حوالے سے کہا تھا کہ انہیں شک ہے یہ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کا کام ہوسکتا ہے۔
میانوالی
آبادی: 1,397,000
پنجاب کے شہر میانوالی کی سرحد صوبہ سرحد کے ساتھ ملتی ہیں۔ فروری میں میانوالی میں قدرت آباد پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ اور بموں کے استعمال سے آٹھ پولیس والے ہلاک ہوئے تھے۔ تحریک طالبان درہ آدم خیل نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی یہ دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر حکومت نے درہ آدم خیل میں فوجی کارروائی ختم نہیں کی اور ان کے ساٹھ گرفتار شدہ ساتھیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو آئندہ وہ صوبہ پنجاب میں اپنی کارروائیاں کریں گے۔
چکوال
آبادی: 1,373,000
صوبہ پنجاب کے شہر چکوال میں بھی فرقہ ورانہ تشدد کی کارروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔اپریل کے شروع میں شہر کے وسط میں واقع امام بارگاہ کے قریب ایک خود کش حملہ اس وقت ہوا جب امام بارگاہ میں سالانہ مجلس ہو رہی تھی اور وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ بعد میں خود کو 'تحریک طالبان پنجاب‘ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ایک شخص نے چکوال میں ہوئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی اور اعلان کیا کہ بیت اللہ محسود کی سرپرستی میں پنجاب میں طالبان کی یہ نئی تنظیم آئندہ چند روز میں صوبہ پنجاب میں اس طرح کی مزید وارداتیں کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
حکومت کے زیرِ کنٹرول
جن علاقوں میں شدت پسند کارروائیوں یا شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع نہیں ہے ان میں چترال، ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چارسدہ اور کرک سر فہرست ہیں۔
چترال
صوبہ سرحد کا انتہائی شمالی ضلع چترال صوبہ کا رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ضلع ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ وقتاً فوقتاً اس علاقے میں القاعدہ کی اعلیٰ ترین قیادت کی موجودگی کی خبریں دیتا رہا ہے تاہم اس بابت کوئی گرفتاری یا موجودگی کی مصدقہ اطلاع نہیں ملی ہے۔ ماضی میں یہاں ایک عاد بار فلاحی تنظیموں پر حملے بھی ہوئے لیکن یہ واقعات مقامی نوعیت کے رہے۔ طالبان کی یہاں موجودگی کی کوئی زیادہ شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس کی ایک وجہ شاید اس ضلع میں غیر پختون مقامی آبادی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ ضلع اور یہاں کی آبادی باقی صوبہ سے کافی مختلف ہیں۔ یہاں کی مقامی زبان بھی خوار کہلاتی ہے۔ اس ضلع کے لوگ پرامن اور دیانتدار مشہور ہیں۔
ہزارہ ڈویژن
صوبہ سرحد کے ہری پور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے اضلاع میں اکثر مقامی آبادی غیرپختون ہے۔ اس سیاحتی اور فوج میں بھرتی کے اعتبار سے اہم علاقے ہیں لہذا یہاں شدت پسندی کے زیادہ شواہد نہیں ملے ہیں۔ اگرچہ دو ہزار پانچ کے تباہ کن زلزلے کے بعد یہاں سرگرم چند غیرسرکاری تنظیموں کو دھمکیاں بھی ملیں اور حملے بھی ہوئے تاہم وہ مقامی سطح اور ناراض متاثرین کے گرد زیادہ گھومتے ہیں۔
کرک
صوبہ سرحد کا کرک وہ صوبہ ہے جہاں سے نیم فوجی ملیشیا فرنٹیر کور میں سب سے زیادہ بھرتی ہوتی ہے۔ یہاں تعلیم بھی باقی اضلاع سے زیادہ ہے اور بےروزگاری بھی قدرے کم ہے۔
Source: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/05/090504_taleban_map.shtml
No comments:
Post a Comment
1. You are very welcome to comment, more so if you do not agree with the opinion expressed through this post.
2. If you wish to hide your identity, post with a pseudonym but don't select the 'anonymous' option.
3. Copying the text of your comment may save you the trouble of re-writing if there is an error in posting.