Editor's Choice

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Featured Post
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

"Let us build Pakistan" has moved.
30 November 2009

All archives and posts have been transferred to the new location, which is: http://criticalppp.com

We encourage you to visit our new site. Please don't leave your comments here because this site is obsolete. You may also like to update your RSS feeds or Google Friend Connect (Follow the Blog) to the new location. Thank you.


--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

Monday, 6 April 2009

A wake up call: Is Talibanisation now creeping in cities of Sindh --- The land of Sachal and Lal Shahbaz Qalandar ??

File photo of famous Lal Mosque Brigade




Extremists disrupt dance programme




LARKANA, April 4: Unidentified men forced the cancellation of a spring fair near Larkana on Friday after they objected to the presence of dancing girls. According to organisers, the “hoodlums belonged to the Jamiat Ulema-i-Islam. However a JUI leader, Abdul Razzak Abid Lakho, disowned the assailants, saying that “we had merely requested the organisers to stop the dance. We have nothing to do with the disruption.” Sources in Waggan town said a group of JUI workers pulled up at the exhibition ground after Friday prayers and told the organisers to cancel the “vulgar dance” and expel the 12 dancers. “Otherwise you will be responsible for the consequences”. The men had brought with them a number of veils in order to shame the authorities. The terrorised dancers left the scene immediately and the organizers had no option but to cancel the programme.




Source: Daily Dawn, 5th April, 09


===================================================================



پنجاب کی رقاصائیں سندھ بدر
نثار کھوکھر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاڑکانہ


سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ میں جاری بسنت میلے میں فن کا مظاہرہ کرنے والی رقاصاؤں نے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان کے ایک مقامی راہنما اور کارکنوں کے کہنے پر علاقہ چھوڑ دیا ہے۔ انہیں پردے کے لیے اجرک تحفہ پیش کرتے ہوئے دو گھنٹے کے اندر علاقے سے نکل جانے کو کہا گیا تھا۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات مولانا عبدالرزاق عابد لاکھو نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے انڈس ہائی وی پر اپنے علاقے وگن میں جاری بسنت میلے کی شکایت ضلعی پولیس انتظامیہ سے کی تھی اور ان کے تعاون سے رقاصاؤں کو علاقہ چھوڑدینے کو کہا تھا۔
جے یو آئی کے ترجمان کےمطابق ان کے چھ راہنماؤں پر مشتمل وفد مقامی پولیس افسر کے ہمراہ رقاصاؤں کے پاس پہنچا اور انہیں رقص بند کرنے کو کہا۔ مولوی لاکھو کےمطابق انہوں نے رقاصاؤں کی دو سربراہ خواتین کو پردے کے طور پر اجرک کا ’تحفہ‘ پیش کیا اور انہیں فوری طور پر علاقہ چھوڑ دینے کو کہا۔
بسنت میلے میں اٹھارہ رقاصائیں اپنا فن پیش کر رہی تھیں جو مذہبی تنظیم کے وفد کی آمد کے بعد ایک گھنٹے کے اندر علاقہ چھوڑ گئی ہیں۔ وگن میں بسنت میلہ دس روز کے لیے لگایا گیا تھا مگر منتظمین کے مطابق مذہبی تنظیم کی شکایت کے باعث انہوں نے تین دن میں بسنت میلے کا اختتام کردیا ہے۔
سندھ کو عام طور پر صوفیا کی سرزمین کہا جاتا ہے اور صوفیانہ کلام عوام کی اکثریت میں مقبول ہے مگر گزشتہ چند ماہ سے جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے کارکن محفل ِموسیقی کے خلاف اپنے اکثریتی علاقوں میں اعتراض کرتے رہے ہیں۔
تین ماہ پہلے نوابشاہ میں مقامی ٹی وی نیٹ ورک سندھ ٹی وی کی طرف سے نوابشاہ میں منعقد ہونے والے میوزک شو کو بھی جمعیت علماء اسلام کے اعتراض کے بعد عدالتی حکم پر بند کیا گیا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام نوابشاہ کے راہنماؤں نے سندہ ٹی وی کے میوزک شو کے خلاف مقامی عدالت میں کیس فائل کیا تھا اور عدالتی حکم کے بعد ٹی وی کے میوزک شو کو بند کر دیا گیا تھا۔
جے یو آئی کے کارکنان نے سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ٹی وی، ڈش اور کیبل کے خلاف وال چاکنگ بھی کی ہے۔ جس میں لکھا گیا ہے کہ قیامت کے تین آثار ڈش، کیبل اور وی سی آر ہیں۔
جماعت کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات کا کہنا ہے کہ وہ عدم تشدد کے حامی ہیں لیکن سندہ میں جہاں کہیں ان کی جماعت کی اکثریت ہوگی وہ محفل موسیقی پر قانونی طریقے سے پابندی کےلیے کوششیں کرتے رہیں گے کیونکہ بقول ان کے موسیقی شریعت میں حرام ہے اور ان کا پیغام ہے کہ موسیقی نہیں قرآن سنو۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ سندہ کے صوفی بزرگوں کے کلام پر انہیں اعتراض نہیں اور اسی لیے انہوں نے کبھی عابدہ پروین یا علن فقیر کی محفل پر اعتراض نہیں کیا ہے مگر وہ فحاشی اور عریانی کی اجازت نہیں دیں گے اور بقول ان کے ’پنجاب کی رقاصاؤں کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ سندہ کی سادہ لوح عوام کی جیبیں لوٹ لیں۔

3 comments:

Aamir Mughal said...

Why Ansar Abbasi is not filing any report against this "KUFR" and Imran Khan should send Hamid Khan to represent Taliban and Sufi Muhammad


سوات کیس: ’ہر روز رپورٹ دیں‘
آصف فاروقی



Monday, 6 April, 2009, 12:24 GMT 17:24 PST

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/04/090406_sc_flogging.shtml

پولیس کمیٹی ناصرف یہ معلوم کرے کہ یہ واقعہ کہاں اور کب رونما ہوا بلکہ یہ بھی پتہ چلائے کہ مذکورہ واقعہ رونما ہوا بھی ہے یا نہیں: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ضلع سوات میں ایک خاتون کو کوڑے مارے جانے کے واقعہ کی جامع تحقیقات کے لئے صوبہ سرحد کے پولیس سربراہ ملک نوید کی قائم کردہ کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کو روزانہ کی بنیاد پر تحقیقات میں پیش رفت سے آگاہ کرے۔

پیر کے روز ان احکامات کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت نے واقعہ کا ازخود نوٹس ہوئے متعلقہ حکام کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے سوات اور حکومت کے زیر انتظام دیگر علاقوں میں لا قانونیت اور سرکاری عملداری قائم کرنے میں ناکامی پر وفاقی سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کی سرزنش کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو ان علاقوں میں اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے اقدامات کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔

سوات کے واقعہ پر از خود نوٹس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جس خاتون کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اسے کوڑے مارے گئے اس نے سوات کے کمشنر کے سامنے اس واقعہ کی تردید کی ہے اور خاندانی روایات کے پیش نظر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود عدالت کے سامنے حاضر ہونے سے معذرت کی ہے۔

تم ججوں کو گرفتار کرنے میں تو بہت تیز ہو لیکن ایک لڑکی کو عدالت میں پیش نہیں کر سکتے۔ کیا تمہاری ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ ججوں کے گھر کے باہر رینجرز لگا دو اور پولیس کے کیمپ کھڑے کر دو؟

چیف جسٹس
صوبہ سرحد کے پولیس سربراہ نوید ملک نے بتایا کہ واقعہ کی انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور ضلعی پولیس افسر کی سربراہی میں اعلٰی سطحی کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

عدالت نے ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والی اس کارروائی کے دوران اٹارنی جنرل کے علاوہ وفاقی سیکرٹری داخلہ، صوبہ سرحد کے چیف سیکرٹری اور پولیس سربراہ کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ لطیف آفریدی کے دلائل بھی سنے۔

مقدمہ کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ معاملے کی تفتیش کے لیے قائم کی گئی پولیس کمیٹی ناصرف یہ معلوم کرے کہ یہ واقعہ کہاں اور کب رونما ہوا بلکہ یہ بھی پتہ چلائے کہ مذکورہ واقعہ رونما ہوا بھی ہے یا نہیں۔ اور اگر کوڑوں کی سزا دی گئی ہے تو کس قانون کے تحت۔

عدالت نے اپنے حکم میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ وہ انسانی عظمت کی توہین کرنے والے ملزمان کے خلاف قانون اور آئین کے تحت کارروائی یقینی بنائیں اور اگر قانون کے تحت اس معاملے پر کارروائی ہوتی ہے تو عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور اٹارنی جنرل کو اپنے تحریری حکم کے ذریعے ہدایت کی کہ وہ اعلٰی سطح پر حکومت کے ساتھ رابطوں کے ذریعے سوات میں لا قانونیت کے خاتمہ کے لیے حکمت عملی ترتیب دیں تاکہ اس علاقے میں قانون اور آئین کی عملداری قائم ہو سکے۔

یہ تحریری حکم جاری کرنے سے پہلے چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے اس خصوصی بنچ کے بعض ارکان نے وفاقی سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ کو سوات میں حکومتی عملداری قائم کرنے میں ناکامی پر ان کی سرزنش کی۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر سیکرٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’تم ججوں کو گرفتار کرنے میں تو بہت تیز ہو لیکن ایک لڑکی کو عدالت میں پیش نہیں کر سکتے۔ کیا تمہاری ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ ججوں کے گھر کے باہر رینجرز لگا دو اور پولیس کے کیمپ کھڑے کر دو؟‘

چیف جسٹس نے کہا کہ سوات تو دور کی بات خود اسلام آباد میں جو دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں اسے کون روکے گا۔ ’پوری قوم پریشان ہے اور سب تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں۔ چکوال میں کیا ہوا، مناواں میں کیا ہوا؟ تمہاری وزارت کسی کو روک نہیں سکی۔ کیا کارکردگی ہے تمہاری وزارت کی؟‘ چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے کمال شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اس نوعیت کے سوالات کی بوچھاڑ کر دی جن کے جواب میں سیکرٹری داخلہ نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو ازخود نوٹس لینے کا شوق نہیں ہے لیکن یہ واقعہ ہونے اور اس کی ٹیلی وژن پر تشہیر کے باوجود حکومتی کارندے ٹس سے مس نہیں ہوئے اسی لیے عدالت کو خود کارروائی کرنی پڑی۔

’تم عدالت کو بتاؤ کہ یہ واقعہ ہونے کے بعد تم نے کیا کیا؟ اگر میڈیا والوں کو اس کا پتہ چل گیا تو تمہاری ایجنسیاں کہاں تھیں؟‘ سید کمال شاہ نے چیف جسٹس کی جانب سے پوچھے گئے ان سوالوں کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔

جسٹس خلیل رمدے نے کہا ’تم کیسے سیکرٹری داخلہ ہو کہ سوات میں جا ہی نہیں سکتے۔ اگر آپ اتنے اہل ہیں تو جائیں سوات میں اور خود اس سارے معاملے کی تحقیق کریں۔‘

جسٹس رمدے نے کہا کہ وفاقی حکومت کی مشینری اپنا کام نہیں کر رہی اور جب کسی سنگین معاملے پر عدالت از خود نوٹس لیتی ہے تو انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔’کیا تم یہی چاہتے ہو کہ معزز چیف جسٹس از خود نوٹس لیتے رہیں اور تمہیں خود سے کوئی کام نہ کرنا پڑے؟‘

جسٹس رضا محمد رضا نے کہا کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں صورتحال بہت تشویشناک ہے اور حکومت بالکل بے بس دکھائی دیتی ہے۔’صوبائی اتنظامیہ جس کا سوات پر انتظامی کنٹرول ہے وہ کیا کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ بہت خطرناک ہے اور اسے روکنا ہو گا۔‘

جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ملک میں مجرموں کو سزا دینا ریاست کا کام ہے۔ ’کوئی بندوق بردار اپنے طور پر ریاستی امور اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ اس روایت کو روکنا ہو گا تاکہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے وقار کو بحال کیا جا سکے۔‘

اس موقع پر اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے عدالت کو قائل کرنے کے لیے بتایا کہ سوات میں امن معاہدہ ہو گیا ہے جس کے بعد علاقے میں امن کے قیام میں مدد مل رہی ہے۔اس موقع پر بنچ میں شامل بعض ججوں نے سوات امن معاہدے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

ہمیں امن معاہدے یا قانون عدل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ عدالت کا کام نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سوات میں قانون کی عمل داری ہے؟ کیا وہاں پاکستانی آئین کی پاسداری کی جا رہی ہے؟ ہم نے ملک کا وقار بحال کرنا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کو ان کے حقوق دلوانے ہیں۔ آئین اور قانون کی عملداری یقینی بنانی ہے۔

چیف جسٹس
جسٹس فقیر کھوکھر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اس امن معاہدے کے بعد شدت پسندوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟ جسٹس خلیل رمدے کا کہنا تھا کہ یہ کیسا امن معاہدہ ہے کہ حکومت کا کوئی افسر علاقے میں جا ہی نہیں سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں امن معاہدے یا قانون عدل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ عدالت کا کام نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سوات میں قانون کی عمل داری ہے؟ کیا وہاں پاکستانی آئین کی پاسداری کی جا رہی ہے؟ ’ہم نے ملک کا وقار بحال کرنا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کو ان کے حقوق دلوانے ہیں۔ آئین اور قانون کی عملداری یقینی بنانی ہے۔‘

اس موقع پر عدالت میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ اگر عدالت اس معاملے کی خود سے تحقیقات کروانا چاہتی ہے تو سوات میں کون سرکاری افسر تحقیقات کے لئے جانے پر تیار ہو گا۔

جسٹس رمدے نے سب سے پہلے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کا کمیشن بنا کر سوات چلے جائیں۔ لطیف کھوسہ اس حکم پر پہلے تو خاموش رہے جب دوسری دفعہ جسٹس رمدے نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ سوات جانے کے لئے تیار ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت کا حکم ہو تو وہ ایسا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بیشتر سرکاری اور اعلٰی پولیس افسر سوات جانے سے انکار کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کو ہدات کی کہ وہ سوات چلے جائیں۔ تاہم ان کی جانب سے جواباً خاموشی اختیار کرنے پر چیف جسٹس نے صوبائی پولیس سربراہ ملک نوید کو حکم دیا کہ وہ کمال شاہ کو لے کر سوات جائیں اور اس سارے معاملے کی خود تفتیش کریں۔ لیکن اس پر بھی خاموشی طاری رہی۔

Aamir Mughal said...

To understand this Menace , you must listen and watch this:

Mr. Masood Sharif Khan Khattak - Former Director General IB on Terrorism in Pakistan

http://chagataikhan.blogspot.com/2009/04/mr-masood-sharif-khan-khattak-former.html

Mr. Masood Sharif Khan Khattak - Former Director General IB and 90s Politics.

http://chagataikhan.blogspot.com/2009/04/mr-masood-sharif-khan-khattak-former_07.html

Anonymous said...

MQM and Altaf Hussain pointing towards this menace from a long time but my sindhi brother didn't pay any attention, now ready to pay the price.

Post a Comment

1. You are very welcome to comment, more so if you do not agree with the opinion expressed through this post.

2. If you wish to hide your identity, post with a pseudonym but don't select the 'anonymous' option.

3. Copying the text of your comment may save you the trouble of re-writing if there is an error in posting.