Editor's Choice

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Featured Post
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

"Let us build Pakistan" has moved.
30 November 2009

All archives and posts have been transferred to the new location, which is: http://criticalppp.com

We encourage you to visit our new site. Please don't leave your comments here because this site is obsolete. You may also like to update your RSS feeds or Google Friend Connect (Follow the Blog) to the new location. Thank you.


--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

Thursday, 13 August 2009

A true story of Taliban's atrocities in Swat: Persecution of the PPP supporters by the Mullah-Military Alliance in Pakistan


’فوج مدد کرتی توماں، شوہر، بیٹا زندہ ہوتے‘

سوات میں پاکستانی فوج

’فوج کو خبر ہونے تک طالبان گھر کا محاصرہ کر چکے تھے‘

پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں پچھلے کئی سالوں سے جاری تشدد کی لہر نے نہ صرف لوگوں کے ذہنوں میں ملک کی ’سلامتی‘ کے بارے میں خدشات پیدا کیے ہیں بلکہ اس کی کھوکھ سے جنم لینے والے المیے متاثرہ افراد کی زندگیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے نتھی ہو چکے ہیں۔ طالبان اور سکیورٹی فورسز کے مابین جاری لڑائی سے جنم لینے والے انسانی المیوں کے مختلف پہلووں کو صحافت کے تنگ دامن میں یا تو سرے سے جگہ ہی نہیں مل سکی اور اگر ملی بھی تو اس طرح نہیں جس طرح سے یہ واقعات رونما ہوئے اور یوں حقیقی کہانیاں صحافتی مقابلے کی دوڑ کے ملبے میں کہیں دفن ہوگئیں۔

پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار عبدالحئی کاکڑ جنگ زدہ افراد یا خاندانوں پر بیتی ہوئی انہی کہانیوں کی کھوج میں ہیں جنہیں بی بی سی اردو ڈاٹ کام ایک سیریز کی صورت میں شائع کر رہی ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کہانی۔

بی بی مہینہ، محلہ سلینڈ کوز شور، تحصیل مٹہ، سوات

ہمارا خاندانی تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ میرے دیور محمد شیر خان پیپلز پارٹی سوات کے نائب صدر ہیں۔ طالبان نے جب سوات پر کنٹرول حاصل کیا تو ہمارے خاندان نے یہ کہہ کر ان کو ماننے سے انکار کر دیا کہ یہاں پر صرف حکومت کی ہی عملداری ہوگی۔ یہاں سے ہمارے اور طالبان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا۔ انہوں نے پہلے میرے دیور محمد شیر خان پر عید کے دن حملہ کیا جس میں وہ زخمی ہوگئے۔ چھ مہینے کے بعد تئیس جون دو ہزار آٹھ کو انہوں نے میرے ایک اور دیور منیر خان کے گھر میں اس وقت دستی بم پھینکا جب وہ اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔ اس حملے میں وہ ہلاک ہوگئے۔

میرے شوہر عبدالکبیر خان اور میرا بیٹا محمد علی خان اگلے دن شام کو فاتحہ خوانی سے واپس آ رہے تھے کہ گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی طالبان نے ان پر حملہ کردیا۔ وہ جلدی سے گھر میں داخل ہوگئے۔ اس وقت میں نے دروازے کو تالا لگا دیا۔ طالبان نے ہم پر فائرنگ شروع کردی۔ گھر میں میری والدہ ، شوہر، بیٹا، بہو اور ان کے پانچ بچے تھے۔

میں نے بھاگ کر اسلحہ نکالا اور اپنے شوہر اور بیٹے کے حوالے کردیا۔ میرے شوہر نے پہلے فوجیوں کو فون کیا اور پھر دوسرے حکومتی اہلکاروں اور رشتہ داروں کو۔ مگر اس وقت تک طالبان چاروں طرف سے ہمارے مکان کا محاصرہ کر چکے تھے۔ وہ ہلکے ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے اور دستی بم پھینکتے رہے۔ انہوں نے صحن میں تیرہ چودہ دستی بم پھینکے جو پھٹ گئے لیکن ہمیں کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔

اگر فوج اور اڑوس پڑوس کے لوگ ہماری تھوڑی بھی مدد کرتے تو آج میرا شوہر، بیٹا اور ماں زندہ ہوتیں۔اگر دو بندے تقریباً چودہ گھنٹے تک بھاری اور ہلکے اسلحوں سے لیس طالبان کی مزاحمت کر سکتے ہیں تو فوج اور مقامی لوگوں کی مدد سے انہیں شکست بھی دی جا سکتی تھی۔

بی بی مہینہ

ہمارے گھر میں بندوقیں، کلاشنکوف اور پستول موجود تھے اور میرا شوہر اور بیٹا کبھی بندوق تو کبھی پستول سے فائرنگ کرتے تاکہ طالبان کواس دھوکے میں رکھیں کہ گھر میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ فائرنگ کی آوازوں سے بچے بہت زیادہ رو رہے تھے اور ہم نے انہیں باورچی خانے منتقل کردیاجو قدرے محفوظ جگہ تھی۔

میں اور میری بہو میگزین میں کارتوس بھر بھر کر میرے شوہر اور بیٹے کو دیتے رہے۔رات کے دس بجے میری ماں کو سینے میں گولی لگی۔ میں لاچاری سے ان کے سرہانے کھڑی انہیں آخری سانسیں لیتے دیکھتی رہیں۔ میں ایک دفعہ ماں کے پاس آتی اور پھر بھاگ کر میگزین لوڈ کر کے انہیں شوہر اور بیٹے تک پہنچاتی ۔ وہ تقریباً دو گھنٹے کے بعد مرگئیں، مرنے کے بعد میں نے انہیں سیدھا لٹاکر ان پر کمبل ڈال دیااور باہر نکل آئی۔

گولیوں کی اتنی بوچھاڑ تھی کہ ایک آدھ دفعہ تو گولیاں میرے پائنچوں سے ہوتی ہوئی باہر کو نکلیں۔رات گہری ہوتی گئی۔ میرا شوہر اور بیٹا مزاحمت کرتے رہے۔صبح کے چار بجے مجھے باورچی خانے سے’آہ‘ کی آواز آئی۔ میں نے آواز دی کیا ہوا تو شوہر نے کہا ’مجھے گولی لگ گئی ہے‘۔ انہیں پیٹ میں گولی لگی تھی۔ میں ان کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ میرے پاس علاج کا کوئی وسیلہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے کسی چیز کی سمجھ آرہی تھی۔

مہینہ بی بی کا پوتا اور پوتی

مہینہ بی بی اپنے پوتے اور پوتیوں کے ہمراہ باہر نکل گئیں

کچھ دیر بعد میرا بیٹا بھی باورچی خانے میں داخل ہوا اور جب اس نے اپنے والد کو زخمی حالت میں دیکھا تو وہ بھی حوصلہ ہار بیٹھا۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ ’میں بھی جیتے جی خود کو طالبان کے حوالے نہیں کروں گا۔ میں صحن کے بیچ میں جا کر ان کی گولیوں کا نشانہ بننا چاہتا ہوں‘۔ یہ سن کر میں نے اس سے کہا کہ ’بیٹے حوصلہ مت ہارو، وہ ویسے ہی تمہیں مار دیں گے آخر کب تک مزاحمت کر پاؤ گے، تم نے آخری دم تک لڑنا ہے مگر خدارا بیٹے میری آنکھوں سے اوجھل ہوجاؤ تا کہ میں تمہیں گولی لگتے دیکھ نہ سکوں۔‘ میں اپنی ماں اور شوہر کے بعد اپنے بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔

اس نے حوصلہ پا کر پھر فائرنگ شروع کردی۔ تقریباً ایک گھنٹے تک میں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی رہی۔ ہم نے زیادہ باتیں نہیں کیں۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ’غیرت ایک ہی دن دکھائی جاتی ہے روز روز نہیں۔ اگر تم لوگ زندہ بچ گئے تو بچوں کا خیال رکھنا‘۔ تھوڑی دیر بعد وہ فوت ہوگئے۔

ابھی میں ان کو سنبھال ہی رہی تھی کہ باورچی خانے کے دوسرے حصے سے بم دھماکے کی آواز آئی۔ میں نے بھاگ کر دیکھا تو میرا بیٹا دستی بم کا نشانہ بن گیا تھا۔( اس وقت بی بی مہینہ کی آواز حلق میں اٹک گئی اور انہوں نے پانی پینے کے بعد اپنی کہانی پھر شروع کی) ۔ کچھ ہی دیر بعد نقاب پوش طالبان اندر آگئے۔ انہوں نے ہم سے باہر نکل جانے کو کہا۔ انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے کپڑے نکال کر انہیں آگ لگا دی۔ سونا نکال کر چرایا۔ میں، میری بہو اور پانچ چھوٹے چھوٹے بچے لاشیں چھوڑ کر گھر سے نکل آئے اور قریب ہی واقع اپنے دیور کے گھر چلے گئے۔ کچھ دور چل کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہمارا مکان شعلوں کی لپیٹ میں تھا۔اگلے دن انہوں نے ہمارے دوسرے دیور کے گھر کو بھی بارودی مواد سے اڑا دیا۔

میرے ذہن میں ہر وقت مزاحمت والی رات کے مناظر گردش کرتے ہیں۔ کبھی کبھار چیخ کر نیند سے بیدار ہوجاتی ہوں۔ میرے پاس شوہر اور بیٹے کی تصویریں ہیں جنہیں کبھی کبھار اٹھا کر تکتی رہتی ہوں۔

بی بی مہینہ

میرے شوہر کے علاوہ میں نے خود بھی فوجیوں کو فون کیا۔ ہمارے گھر کے سامنے فوجیوں کی ایک چوکی بھی ہے جنہوں نے ہماری مدد کے لیے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ طالبان نے ایکسچینج پر قبضہ کر کے فون کا نظام منقطع کردیا۔ ہمارے پڑوسیوں کو کہا گیا تھا کہ وہ ہماری مدد کو آنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر فوج اور اڑوس پڑوس کے لوگ ہماری تھوڑی بھی مدد کرتے تو آج میرا شوہر، بیٹا اور ماں زندہ ہوتیں۔ اگر دو بندے تقریباً چودہ گھنٹے تک بھاری اور ہلکے اسلحوں سے لیس طالبان کی مزاحمت کر سکتے ہیں تو فوج اور مقامی لوگوں کی مدد سے انہیں شکست بھی دی جا سکتی تھی۔

ہم اب سوات سے نکل آئے ہیں اور واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ وہاں پر اب طالبان موجود ہیں۔ میرے ذہن میں ہر وقت مزاحمت والی رات کے مناظر گردش کرتے ہیں۔ کبھی کبھار چیخ کر نیند سے بیدار ہوجاتی ہوں۔ میرے پاس شوہر اور بیٹے کی تصویریں ہیں جنہیں کبھی کبھار اٹھا کر تکتی رہتی ہوں



Terrorism and the police
By Ayesha Siddiqa
Friday, 14 Aug, 2009


In a recent letter to the editor in this paper, a reader has expressed surprise at a perception contained in columnist Ahmad Faruqui’s article Talking to India (Aug 3) that no assurance can be given to an ‘apprehensive Indian population that Pakistan’s shadowy intelligence agencies are serious about cracking down on the zealots….’

It has also been pointed out in the letter that ‘it is the law-enforcement agencies, not the intelligence agencies, that are supposed to take corrective action against anyone who breaks the law.’

This shows a lack of understanding of how law-enforcement agencies in Pakistan are less powerful than the military and its intelligence agencies. In a country, which has been ruled by the military for half of its history, it is strange, that some people should still not be able to comprehend the fact that the armed forces or any institution attached to them are more powerful.

However, the more pressing question remains of whether the police can fight the terrorists. Experts believe that the police do not have the capacity to fight terrorism. Surely, the police could never deal with the Taliban in the tribal areas which in any case have never been under state control.

In fact, control over places like Swat in the Frontier province was also lost as weapons flowed into these areas. Once the police found itself out-manoeuvred because of better equipment in the possession of the other side, fighting became difficult and Fazlullah and his group got out of control. Such circumstances also lead to a lack of motivation. How can a numerically inferior and ill-trained and under-motivated force fight the highly motivated jihadis? It is no secret that the police in most provinces are busy protecting the numerous VIPs.

However, its strength, especially in areas where the state has some marginal writ, lies in its institutional network which is extremely sound when it comes to gathering information at the local level. For instance, the police can tackle the Punjab-based jihadis. This is not because these different groups responsible for deadly attacks inside and outside the country are weak. In fact, they are deadlier than a lot of Taliban groups as their force is driven simply by ideology and they are not tied down by ethnic and tribal affinity. In terms of their lethality, the Punjab-based groups are on a par with the Jemaah Islamiya of Indonesia or the Uzbek warriors.

Here, the argument is that the greatest strength of the police is its tremendous intelligence network. Police know what is happening in an area and who the crooks and the good guys are. Many must have heard of the joke about the search for the British queen’s lost dog. While the British, German and American police were unable to find the canine, a Pakistani police official went into a nearby forest and returned with a cow who ‘confessed’ to being the queen’s dog. This reflects the institution’s brutality and its penetration.

So, it is impossible that the local police had no idea about Master Riaz (linked with the Mian Channu blast) and his activities. In fact, police in Punjab, like their colleagues in the Frontier, know exactly where the culprits are.

Problems occur when they are ordered not to touch unsavoury characters or there is intervention from the authorities considered more powerful than the lowly police official. In a socio-political system driven by sheer authority, a police SHO or ASI knows fully well that saying no to someone who claims to be a military intelligence official might have extremely unpleasant consequences. There are many instances when the police are unable to carry out their duties due to outside interference.

There have also been many instances in the past when jihadi groups proved effective in tackling extra efficient police officials and officers. Some might argue that such intervention happened during times when most or some of the jihadis were state assets. Nevertheless the problem is two-fold. First, it is still not clear if all state elements have completely withdrawn their support for certain jihadi outfits. For instance, in numerous cases journalists trying to study south Punjab were warned off not by jihadis but by military intelligence. So, are these militants assets?

Clearly, the Pakistani state seems to be sending mixed signals. There is the political state which wants to solve the problem; thus we have the interior minister submitting a list of 25 banned organisations. But then secondary verification shows that even organisations like Al Qaeda are not banned (this was admitted in the Lahore High Court) which means that covert state elements may well be continuing their support to groups.

Second, with such confusion police officials find it very difficult to tell if the more powerful part of the state continues to support the militants. After all, intelligence agencies never publish an announcement saying that they are withdrawing support. Perhaps police officers should be held responsible for not raising a hue and a cry when they see things going wrong.

The majority constitute those who are afraid for their lives considering that the police are in the direct line of jihadi fire. In the words of a police officer, ‘Why should I put myself in the line of fire when all that I will get for sacrificing my life is Rs100,000 and a state funeral? I go after the shooting is over.’

Incidentally, the officer cited above is truly one of the most professional, committed, honest and well-trained officers. But the bulk of police officers give in to pressure be it from politician, the army or military intelligence. The pressure from above and irresponsible policing then results in poor handling of situations as we saw in the case of Gojra. The bottom-line is that while the government goes around asking for better training and equipment for its police force, it must also attend to internal systemic problems.

While the police needs clarity regarding state policy, it would help if the law-enforcement agencies were empowered to carry out their duties without any interference. It is also high time that we understand that covert states have a high opportunity cost and hamper peace and stability in the country, the region and the world at large.


ayesha.ibd@gmail.com

http://www.dawn.com/

No comments:

Post a Comment

1. You are very welcome to comment, more so if you do not agree with the opinion expressed through this post.

2. If you wish to hide your identity, post with a pseudonym but don't select the 'anonymous' option.

3. Copying the text of your comment may save you the trouble of re-writing if there is an error in posting.